حدثني مؤمل بن هشام أبو هشام ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، حدثنا عوف ، حدثنا أبو رجاء ، حدثنا سمرة بن جندب ـ رضى الله عنه ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مما يكثر أن يقول لأصحابه " هل رأى أحد منكم من رؤيا ". قال فيقص عليه من شاء الله أن يقص ، وإنه قال ذات غداة " إنه أتاني الليلة آتيان ، وإنهما ابتعثاني ، وإنهما قالا لي انطلق. وإني انطلقت معهما ، وإنا أتينا على رجل مضطجع ، وإذا آخر قائم عليه بصخرة ، وإذا هو يهوي بالصخرة لرأسه ، فيثلغ رأسه فيتهدهد الحجر ها هنا ، فيتبع الحجر فيأخذه ، فلا يرجع إليه حتى يصح رأسه كما كان ، ثم يعود عليه ، فيفعل به مثل ما فعل المرة الأولى. قال قلت لهما سبحان الله ما هذان قال قالا لي انطلق ـ قال ـ فانطلقنا فأتينا على رجل مستلق لقفاه ، وإذا آخر قائم عليه بكلوب من حديد ، وإذا هو يأتي أحد شقى وجهه فيشرشر شدقه إلى قفاه ، ومنخره إلى قفاه وعينه إلى قفاه ـ قال وربما قال أبو رجاء فيشق ـ قال ثم يتحول إلى الجانب الآخر ، فيفعل به مثل ما فعل بالجانب الأول ، فما يفرغ من ذلك الجانب حتى يصح ذلك الجانب كما كان ، ثم يعود عليه فيفعل مثل ما فعل المرة الأولى. قال قلت سبحان الله ما هذان قال قالا لي انطلق. فانطلقنا فأتينا على مثل التنور ـ قال فأحسب أنه كان يقول ـ فإذا فيه لغط وأصوات ـ قال ـ فاطلعنا فيه ، فإذا فيه رجال ونساء عراة ، وإذا هم يأتيهم لهب من أسفل منهم ، فإذا أتاهم ذلك اللهب ضوضوا ـ قال ـ قلت لهما ما هؤلاء قال قالا لي انطلق انطلق. قال فانطلقنا فأتينا على نهر ـ حسبت أنه كان يقول ـ أحمر مثل الدم ، وإذا في النهر رجل سابح يسبح ، وإذا على شط النهر رجل قد جمع عنده حجارة كثيرة ، وإذا ذلك السابح يسبح ما يسبح ، ثم يأتي ذلك الذي قد جمع عنده الحجارة فيفغر له فاه فيلقمه حجرا فينطلق يسبح ، ثم يرجع إليه ، كلما رجع إليه فغر له فاه فألقمه حجرا ـ قال ـ قلت لهما ما هذان قال قالا لي انطلق انطلق. قال فانطلقنا فأتينا على رجل كريه المرآة كأكره ما أنت راء رجلا مرآة ، وإذا عنده نار يحشها ويسعى حولها ـ قال ـ قلت لهما ما هذا قال قالا لي انطلق انطلق. فانطلقنا فأتينا على روضة معتمة فيها من كل نور الربيع ، وإذا بين ظهرى الروضة رجل طويل لا أكاد أرى رأسه طولا في السماء ، وإذا حول الرجل من أكثر ولدان رأيتهم قط ـ قال ـ قلت لهما ما هذا ما هؤلاء قال قالا لي انطلق انطلق. ـ قال ـ فانطلقنا فانتهينا إلى روضة عظيمة لم أر روضة قط أعظم منها ولا أحسن. ـ قال ـ قالا لي ارق فيها. قال فارتقينا فيها فانتهينا إلى مدينة مبنية بلبن ذهب ولبن فضة ، فأتينا باب المدينة فاستفتحنا ففتح لنا ، فدخلناها فتلقانا فيها رجال شطر من خلقهم كأحسن ما أنت راء ، وشطر كأقبح ما أنت راء ـ قال ـ قالا لهم اذهبوا فقعوا في ذلك النهر. قال وإذا نهر معترض يجري كأن ماءه المحض في البياض ، فذهبوا فوقعوا فيه ، ثم رجعوا إلينا قد ذهب ذلك السوء عنهم ، فصاروا في أحسن صورة ـ قال ـ قالا لي هذه جنة عدن ، وهذاك منزلك. قال فسما بصري صعدا ، فإذا قصر مثل الربابة البيضاء ـ قال ـ قالا هذاك منزلك. قال قلت لهما بارك الله فيكما ، ذراني فأدخله. قالا أما الآن فلا وأنت داخله. قال قلت لهما فإني قد رأيت منذ الليلة عجبا ، فما هذا الذي رأيت قال قالا لي أما إنا سنخبرك ، أما الرجل الأول الذي أتيت عليه يثلغ رأسه بالحجر ، فإنه الرجل يأخذ القرآن فيرفضه وينام عن الصلاة المكتوبة ، وأما الرجل الذي أتيت عليه يشرشر شدقه إلى قفاه ، ومنخره إلى قفاه ، وعينه إلى قفاه ، فإنه الرجل يغدو من بيته فيكذب الكذبة تبلغ الآفاق ، وأما الرجال والنساء العراة الذين في مثل بناء التنور فإنهم الزناة والزواني. وأما الرجل الذي أتيت عليه يسبح في النهر ويلقم الحجر ، فإنه آكل الربا ، وأما الرجل الكريه المرآة الذي عند النار يحشها ويسعى حولها ، فإنه مالك خازن جهنم ، وأما الرجل الطويل الذي في الروضة فإنه إبراهيم صلى الله عليه وسلم وأما الولدان الذين حوله فكل مولود مات على الفطرة ". قال فقال بعض المسلمين يا رسول الله وأولاد المشركين فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " وأولاد المشركين. وأما القوم الذين كانوا شطر منهم حسنا وشطر منهم قبيحا ، فإنهم قوم خلطوا عملا صالحا وآخر سيئا ، تجاوز الله عنهم ".
مجھ سے ابو ہشام مؤمل بنہشام نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے ‘ انہوں نے کہا ہم سے عوف نے ‘ ان سے ابو رجاء نے ‘ ان سے سمرہبنجندب رضیاللہعنہ نے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو باتیں صحابہ سے اکثر کیا کرتے تھے ان میں یہ بھی تھی کہ تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ۔ بیان کیا کہ پھر جو چاہتا اپنا خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح کو فرمایا کہ رات میرے پاس دو آنے والے آئے اور انہوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا کہ ہمارے ساتھ چلو میں ان کے ساتھ چل دیا ۔ پھر ہم ایک لیٹے ہوئے شخص کے پاس آئے جس کے پاس ایک دوسرا شخص پتھر لیے کھڑا تھا اور اس کے سر پر پتھر پھینک کر مارتا تو اس کا سر اس سے پھٹ جاتا ‘ پتھر لڑھک کر دور چلا جاتا ‘ لیکن وہ شخص پتھر کے پیچھے جاتا اور اسے اٹھا لا تا اور اس لیٹے ہوئے شخص تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر ٹھیک ہو جاتا جیسا کہ پہلے تھا ۔ کھڑا شخص پھر اسی طرح پتھر اس پر مارتا اور وہی صورتیں پیش آتیں جو پہلے پیش آئیں تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ان دونوں سے پوچھا سبحاناللہ یہ دونوں کو ن ہیں ؟ فرمایا کہ مجھ سے انہوں نے کہا کہ آگے بڑھو ‘ آگے بڑھو ۔ فرمایا کہ پھر ہم آگے بڑھے اور ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو پیٹھ کے بل لیٹا ہوا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کے پاس لوہے کا آنکڑا لیے کھڑا تھا اور یہ اس کے چہرہ کے ایک طرف آتا اور اس کے ایک جبڑے کو گدی تک چیر تا اور اس کی ناک کو گدی تک چیر تا اور اس کی آنکھ کو گدی تک چیرتا ۔ ( عوف نے ) بیان کیا کہ بعض دفعہ ابو رجاء ( راوی حدیث ) نے ” فیشق “ کہا ‘ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ) بیان کیا کہ پھر وہ دوسری جانب جاتا ادھر بھی اسی طرح چیرتا جس طرح اس نے پہلی جانب کیا تھا ۔ وہ ابھی دوسری جانب سے فارغ بھی نہ ہوتا تھا کہ پہلی جانب اپنی پہلی صحیح حالت میں لوٹ آتی ۔ پھر دوبارہ وہ اسی طرح کرتا جس طرح اس نے پہلی مرتبہ کیا تھا ۔ ( اس طرح برابر ہو رہا ہے ) فرمایا کہ میں نے کہا سبحاناللہ ! یہ دونوں کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ آگے چلو ‘ ( ابھی کچھ نہ پوچھو ) چنانچہ ہم آگے چلے پھر ہم ایک تنور جیسی چیز پر آئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کہا کرتے تھے کہ اس میں شورو آواز تھی ۔ کہا کہ پھر ہم نے اس میں جھانکا تو اس کے اندر کچھ ننگے مرد اور عورتیں تھیں اور ان کے نیچے سے آگ کی لپٹ آتی تھی جب آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیتی تو وہ چلانے لگتے ۔ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ) فرمایا میں نے ان سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چلو آگے چلو ۔ فرمایا کہ ہم آگے بڑھے اور ایک نہر پر آئے ۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے کہا کہ وہ خون کی طرح سرخ تھی اور اس نہر میں ایک شخص تیر رہا تھا اور نہر کے کنارے ایک دوسرا شخص تھا جس نے اپنے پاس بہت سے پتھر جمع کر رکھے تھے اور یہ تیرنے والا تیرتا ہوا جب اس شخص کے پاس پہنچتا جس نے پتھر جمع کر رکھے تھے تو یہ اپنا منہ کھول دیتا اور کنارے کا شخص اس کے منہ میں پتھر ڈال دیتا وہ پھر تیرنے لگتا اور پھر اس کے پاس لوٹ کر آتا اور جب بھی اس کے پاس آتا تو اپنا منہ پھیلا دیتا اور یہ اس کے منہ میں پتھرڈال دیتا ۔ فرمایا کہ میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ فرمایا کہ انہوں نے کہا کہ چلو آگے چلو ۔ فرمایا کہ پھر ہم آگے بڑھے اور ایک نہایت بدصورت آدمی کے پاس پہنچے جتنے بدصورت تم نے دیکھے ہوں گے ان میں سب سے زیادہ بدصورت ۔ اس کے پاس آگ جل رہی تھی اور وہ اسے جلا رہا تھا اور اس کے چاروں طرف دوڑتا تھا ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ) فرمایا کہ میں نے ان سے کہا کہ کیا ہے ؟ فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے کہا چلو آگے چلو ۔ ہم آگے بڑھے اور ایک ایسے باغ میں پہنچے جو ہرا بھرا تھا اور اس میں موسم بہار کے سب پھول تھے ۔ اس باغ کے درمیان میں بہت لمبا ایک شخص تھا ‘ اتنا لمبا تھا کہ میرے لیے اس کا سرد یکھنا دشوار تھا کہ وہ آسمان سے باتیں کرتا تھا اور اس شخص کے چاروں طرف سے بہت سے بچے تھے کہ اتنے کبھی نہیں دیکھے تھے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ) فرمایا کہ میں نے پوچھا یہ کون ہے یہ بچے کون ہیں ؟ فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ چلو آگے چلو فرمایا کہ پھر ہم آگے بڑھے اور ایک عظیمالشان باغ تک پہنچے ‘ میں نے اتنا بڑا اور خوبصورت باغ کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ ان دونوں نے کہا کہ اس پر چڑھئے ہم اس پر چڑھے تو ایک ایسا شہر دکھائی دیا جو اس طرح بنا تھا کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی تھی اور ایک اینٹ چاندی کی ۔ ہم شہر کے دروازے پر آئے تو ہم نے اسے کھلوا یا ۔ وہ ہمارے لیے کھولا گیا اور ہم اس میں داخل ہوئے ۔ ہم نے اس میں ایسے لوگوں سے ملاقات کی جن کے جسم کا نصف حصہ تو نہایت خوبصورت تھا اور دوسرا نصف نہایت بدصورت ۔ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ) فرمایا کہ دونوں ساتھیوں نے ان لوگوں سے کہا کہ جاؤ اور اس نہر میں کود جاؤ ۔ ایک نہر سامنے بہہ رہی تھی اس کا پانی انتہائی سفید تھا وہ لوگ گئے اور اس میں کود گئے اور پھر ہمارے پاس لوٹ کر آئے تو ان کا پہلا عیب جا چکا تھا اور اب وہ نہایت خوبصورت ہو گئے تھے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ) فرمایا کہ ان دونوں نے کہا کہ یہ جنت عدن ہے اور یہ آپ کی منزل ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ) فرمایا کہ میری نظر اوپر کی طرف اٹھی تو سفید بادل کی طرح ایک محل اوپر نظر آیا فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ آپ کی منزل ہے ۔ فرمایا کہ میں نے ان سے کہا اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے ۔ مجھے اس میں داخل ہونے دو ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تو آپ نہیں جا سکتے لیکن ہاں آپ اس میں ضرور جائیں گے ۔ فرمایا کہ میں نے ان سے کہا کہ آج رات میں نے عجیب وغریب چیزیں دیکھی ہیں ۔ یہ چیزیں کیا تھیں جو میں نے دیکھی ہیں ۔ فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے کہا ہم آپ کو بتائیں گے ۔ پہلا شخص جس کے پاس آپ گئے تھے اور جس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا یہ وہ شخص ہے جو قرآن سیکھتا تھا اور پھر اسے چھوڑ دیتا اور فرض نماز کو چھوڑ کر سو جاتا اور وہ شخص جس کے پاس آپ گئے اور جس کا جبڑا گدی تک اور ناک گدی تک اور آنکھ گدی تک چیری جا رہی تھی ۔ یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور جھوٹی خبر تراشتا ‘ جو دنیا میں پھیل جاتی اور وہ ننگے مرد اور عورتیں جو تنور میں آپ نے دیکھے وہ زنا کا ر مرد اور عورتیں تھیں وہ شخص جس کے پاس آپ اس حال میں گئے کہ وہ نہر میں تیر رہا تھا اور اس کے منہ میں پتھر دیا جاتا تھا وہ سود کھانے والا ہے اور وہ شخص جو بدصورت ہے اور جہنم کی آگ بھڑ کا رہا ہے اور اس کے چاروں طرف چل پھر رہا ہے وہ جہنم کا داروغہ مالک نامی ہے اور وہ لمبا شخص جو باغ میں نظر آیا وہ حضرت ابراہیم علیہالسلام ہیں اور جو بچے ان کے چاروں طرف ہیں تو وہ بچے ہیں جو ( بچپن ہی میں ) فطرت پر مر گئے ہیں ۔ بیان کیا کہ اس پر بعض مسلمانوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! کیا مشرکین کے بچے بھی ان میں داخل ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں مشرکین کے بچے بھی ( ان میں داخل ہیں ) اب رہے وہ لوگ جن کا آدھا جسم خوبصورت اور آدھا بدصورت تھا تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اچھے عمل کے ساتھ برے عمل بھی کئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کو بخش دیا ۔
No comments:
Post a Comment