حدثنا موسى بن إسماعيل ، عن إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابن شهاب ، عن عبيد بن السباق ، أن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ قال أرسل إلى أبو بكر مقتل أهل اليمامة فإذا عمر بن الخطاب عنده قال أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ إن عمر أتاني فقال إن القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن وإني أخشى أن يستحر القتل بالقراء بالمواطن ، فيذهب كثير من القرآن وإني أرى أن تأمر بجمع القرآن. قلت لعمر كيف تفعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر هذا والله خير. فلم يزل عمر يراجعني حتى شرح الله صدري لذلك ، ورأيت في ذلك الذي رأى عمر. قال زيد قال أبو بكر إنك رجل شاب عاقل لا نتهمك ، وقد كنت تكتب الوحى لرسول الله صلى الله عليه وسلم فتتبع القرآن فاجمعه فوالله لو كلفوني نقل جبل من الجبال ما كان أثقل على مما أمرني من جمع القرآن قلت كيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم قال هو والله خير فلم يزل أبو بكر يراجعني حتى شرح الله صدري للذي شرح له صدر أبي بكر وعمر ـ رضى الله عنهما ـ فتتبعت القرآن أجمعه من العسب واللخاف وصدور الرجال حتى وجدت آخر سورة التوبة مع أبي خزيمة الأنصاري لم أجدها مع أحد غيره { لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم} حتى خاتمة براءة ، فكانت الصحف عند أبي بكر حتى توفاه الله ثم عند عمر حياته ثم عند حفصة بنت عمر ـ رضى الله عنه ـ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بنسعد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابنشہاب نے بیان کیا ، ان سے عبید بن سباق نے اور ان سے حضرت زیدبنثابت رضیاللہعنہ نے بیان کیا کہ
جنگ یمامہ میں ( صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے ) شہید ہو جانے کے بعد حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ نے مجھے بلا بھیجا ۔ اس وقت حضرت عمر رضیاللہعنہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی ۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ آپ قرآنمجید کو ( باقاعدہ کتابی شکل میں ) جمع کرنے کا حکم دے دیں ۔ میں نے حضرت عمر رضیاللہعنہ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنی زندگی میں ) نہیں کیا ؟ حضرت عمر رضیاللہعنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم یہ تو ایک کارخیر ہے ۔ عمر رضیاللہعنہ یہ بات مجھ سے باربار کہتے رہے ۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا اور اب میری بھی وہیں رائے ہو گئی جو حضرت عمر رضیاللہعنہ کی تھی ۔ حضرت زید رضیاللہعنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ نے کہا آپ ( زید رضیاللہعنہ ) جوان اور عقلمند ہیں ، آپ کو معاملہ میں متہم بھی نہیں کیا جا سکتا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھتے بھی تھے ، اس لئے آپ قرآنمجید کو پوری تلاش اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیں ۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو بھی اس کی جگہ سے دوسری جگہ ہٹانے کے لئے کہتے تو میرے لئے یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کہ ان کا یہ حکم کہ میں قرآنمجید کو جمع کر دوں ۔ میں نے اس پر کہا کہ آپ لوگ ایک ایسے کام کو کرنے کی ہمت کیسے کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں کیا تھا ۔ حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ نے کہا ، اللہ کی قسم ، یہ ایک عمل خیر ہے ۔ حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ یہ جملہ برابر دہراتے رہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر رضیاللہعنہ کی طرح سینہ کھول دیا ۔ چنانچہ میں نے قرآنمجید ( جو مختلف چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا ) کی تلاش شروع کر دی اور قرآنمجید کو کھجور کی چھلی ہوئی شاخوں ، پتلے پتھروں سے ، ( جن پر قرآنمجید لکھا گیا تھا ) اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا ۔ سورۃ التوبہ کی آخری آیتیں مجھے ابوخزیمہ انصاری رضیاللہعنہ کے پاس لکھی ہوئی ملیں ، یہ چند آیات مکتوب شکل میں ان کے سوا اور کسی کے پاس نہیں تھیں لقد جاء كم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم سے سورۃ براۃ ( توبہ ) کے خاتمہ تک ۔ جمع کے بعد قرآنمجید کے یہ صحیفے حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ کے پاس محفوظ تھے ۔ پھر ان کی وفات کے بعد حضرت عمر رضیاللہعنہ نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ امالمؤمنین حفصہ بنت عمر رضیاللہعنہا کے پاس محفوظ رہے ۔
No comments:
Post a Comment