حدثنا مالك بن إسماعيل ، حدثنا زهير ، حدثنا هشام بن عروة ، أن عروة ، أخبره أن زينب ابنة أبي سلمة أخبرته أن أم سلمة أخبرتها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان عندها وفي البيت مخنث ، فقال لعبد الله أخي أم سلمة يا عبد الله إن فتح لكم غدا الطائف ، فإني أدلك على بنت غيلان ، فإنها تقبل بأربع وتدبر بثمان. فقال النبي صلى الله عليه وسلم " لا يدخلن هؤلاء عليكن ". قال أبو عبد الله تقبل بأربع وتدبر بثمان يعني أربع عكن بطنها ، فهى تقبل بهن ، وقوله وتدبر بثمان. يعني أطراف هذه العكن الأربع ، لأنها محيطة بالجنبين حتى لحقت وإنما قال بثمان. ولم يقل بثمانية. وواحد الأطراف وهو ذكر ، لأنه لم يقل ثمانية أطراف.
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، انہیں عروہ نے خبر دی ، انہیں زینببنتابیسلمہ رضیاللہعنہا نے خبر دی اور انہیں حضرت امسلمہ رضیاللہعنہ نے خبر دی کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف رکھتے تھے ۔ گھر میں ایک مخنث بھی تھا ، اس نے امسلمہ رضیاللہعنہما کے بھائی عبداللہ رضیاللہعنہ سے کہا عبداللہ ! اگر کل تمہیں طائف پر فتح حاصل ہو جائے تو میں تمہیں بنت غیلان ( بادیہ نامی ) کو دکھلاؤں گا وہ جب سامنے آتی ہے تو ( اس کے موٹاپے کی وجہ سے ) چار سلوٹیں دکھائی دیتی ہیں اور جب پیٹھ پھیر تی ہے تو آٹھ سلوٹیں دکھائی دیتی ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب یہ شخص تم لوگوں کے پاس نہ آیا کرے ۔ ابوعبداللہ ( حضرت امامبخاری ) نے کہا کہ سامنے سے چارسلوٹوں کا مطلب یہ ہے کہ ( موٹے ہونے کی وجہ سے ) اس کے پیٹ میں چار سلوٹیں پڑی ہوئی ہیں اور جب وہ سامنے آتی ہے تو وہ دکھائی دیتی ہیں اور آٹھ سلوٹوں سے پیچھے پھرتی ہے کا مفہوم ہے ( آگے کی ) ان چاروں سلوٹوں کے کنارے کیونکہ یہ دونوں پہلوؤں کو گھیرے ہوئے ہوتے ہیں اور پھر وہ مل جاتی ہیں اور حدیث میں ” بثمان “ کا لفظ ہے حالانکہ از روئے قائدہ نحو کے ” بثمانیۃ “ ہونا تھا کیونکہ مراد آٹھ اطراف یعنی کنارے ہیں اور اطراف طرف کی جمع ہے اور طرف کا لفظ مذکر ہے ۔ مگر چونکہ اطراف کا لفظ مذکور نہ تھا اس لیے بثمان بھی کہنا درست ہوا ۔
No comments:
Post a Comment