حدثنا عبيد بن إسماعيل ، حدثنا أبو أسامة ، عن هشام ، عن أبيه ، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت استأذن النبي صلى الله عليه وسلم أبو بكر في الخروج حين اشتد عليه الأذى ، فقال له " أقم ". فقال يا رسول الله أتطمع أن يؤذن لك ، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " إني لأرجو ذلك " قالت فانتظره أبو بكر فأتاه رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ظهرا فناداه فقال " أخرج من عندك ". فقال أبو بكر إنما هما ابنتاى. فقال " أشعرت أنه قد أذن لي في الخروج ". فقال يا رسول الله الصحبة. فقال النبي صلى الله عليه وسلم " الصحبة ". قال يا رسول الله عندي ناقتان قد كنت أعددتهما للخروج. فأعطى النبي صلى الله عليه وسلم إحداهما وهى الجدعاء ، فركبا فانطلقا حتى أتيا الغار ، وهو بثور ، فتواريا فيه ، فكان عامر بن فهيرة غلاما لعبد الله بن الطفيل بن سخبرة أخو عائشة لأمها ، وكانت لأبي بكر منحة ، فكان يروح بها ويغدو عليهم ، ويصبح فيدلج إليهما ثم يسرح ، فلا يفطن به أحد من الرعاء ، فلما خرج خرج معهما يعقبانه حتى قدما المدينة ، فقتل عامر بن فهيرة يوم بئر معونة. وعن أبي أسامة قال قال هشام بن عروة فأخبرني أبي قال لما قتل الذين ببئر معونة وأسر عمرو بن أمية الضمري قال له عامر بن الطفيل من هذا فأشار إلى قتيل ، فقال له عمرو بن أمية هذا عامر بن فهيرة. فقال لقد رأيته بعد ما قتل رفع إلى السماء حتى إني لأنظر إلى السماء بينه وبين الأرض ، ثم وضع. فأتى النبي صلى الله عليه وسلم خبرهم فنعاهم فقال " إن أصحابكم قد أصيبوا ، وإنهم قد سألوا ربهم ، فقالوا ربنا أخبر عنا إخواننا بما رضينا عنك ورضيت عنا. فأخبرهم عنهم ". وأصيب يومئذ فيهم عروة بن أسماء بن الصلت ، فسمي عروة به ، ومنذر بن عمرو سمي به منذرا.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضیاللہعنہا نے بیان کیا کہ
جب مکہ میں مشرک لوگ ابوبکر صدیق رضیاللہعنہ کو سخت تکلیف دینے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوبکر رضیاللہعنہ نے بھی اجازت چاہی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی یہیں ٹھہرے رہو ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ بھی ( اللہ تعالیٰ سے ) اپنے لیے ہجرت کی اجازت کے امیدوار ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مجھے اس کی امید ہے ۔ عائشہ رضیاللہعنہا کہتی ہیں کہ پھر ابوبکر رضیاللہعنہ انتظار کرنے لگے ۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ظہر کے وقت ( ہمارے گھر ) تشریف لائے اور ابوبکر رضیاللہعنہ کو پکارا اور فرمایا کہ تخلیہ کر لو ۔ ابوبکر رضیاللہعنہ نے کہا کہ صرف میری دونوں لڑکیاں یہاں موجود ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کو معلوم ہے مجھے بھی ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے ۔ ابوبکررضیاللہعنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا مجھے بھی ساتھ چلنے کی سعادت حاصل ہو گی ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں تم بھی میرے ساتھ چلو گے ۔ ابوبکر رضیاللہعنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں اور میں نے انہیں ہجرت ہی کی نیت سے تیار کر رکھا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے ایک اونٹنی جس کا نام ” الجدعا “ تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی ۔ دونوں بزرگ سوار ہو کر روانہ ہوئے اور یہ غار ثور پہاڑی کا تھا اس میں جا کر دونوں پوشیدہ ہو گئے ۔ عامر بن فہیرہ جو عبداللہ بن طفیل بن سنجرہ ، عائشہ رضیاللہعنہا کے والدہ کی طرف سے بھائی تھے ، ابوبکر رضیاللہعنہ کی ایک دودھ دینے والی اونٹنی تھی تو عامر بن فہیرہ صبح و شام ( عام مویشیوں کے ساتھ ) اسے چرانے لے جاتے اور رات کے آخری حصہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضیاللہعنہ کے پاس آتے تھے ۔ ( غار ثور میں ان حضرات کی خوراک اسی کا دودھ تھی ) اور پھر اسے چرانے کے لیے لے کر روانہ ہو جاتے ۔ اس طرح کوئی چرواہا اس پر آگا ہ نہ ہو سکا ۔ پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکر رضیاللہعنہ غار سے نکل کر روانہ ہوئے تو پیچھے پیچھے عامر بن فہیرہ بھی پہنچے تھے ۔ آخر دونوں حضرات مدینہ پہنچ گئے ۔ بئرمعونہ کے حادثہ میں عامر بن فہیرہ رضیاللہعنہ بھی شہید ہو گئے تھے ۔ ابواسامہ سے روایت ہے ، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، انہیں ان کے والد نے خبر دی ، انہوں نے بیان کیا کہ جب بئرمعونہ کے حادثہ میں قاری صحابہ شہید کئے گئے اور عمرو بن امیہ ضمری رضیاللہعنہ قید کئے گئے تو عامر بن طفیل نے ان سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ انہوں نے ایک لاش کی طرف اشارہ کیا ۔ عمرو بن امیہ رضیاللہعنہ نے انہیں بتایا کہ یہ عامر بن فہیرہ رضیاللہعنہ ہیں ۔ اس پر عامر بن طفیل رضیاللہعنہ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ شہید ہو جانے کے بعد ان کی لاش آسمان کی طرف اٹھائی گئی ۔ میں نے اوپر نظر اٹھائی تو لاش آسمان و زمین کے درمیان لٹک رہی تھی ۔ پھر وہ زمین پر رکھ دی گئی ۔ ان شہداء کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبرائیل علیہالسلام نے باذن خدا بتا دیا تھا ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت کی خبر صحابہ کو دی اور فرمایا کہ تمہارے ساتھی شہید کر دیئے گئے ہیں اور شہادت کے بعد انہوں نے اپنے رب کے حضور میں عرض کیا کہ اے ہمارے رب ! ہمارے ( مسلمان ) بھائیوں کو اس کی اطلاع دیدے کہ ہم تیرے پاس پہنچ کر کس طرح خوش ہیں اور تو بھی ہم سے راضی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ( قرآنمجید کے ذریعہ ) مسلمانوں کو اس کی اطلاع دے دی ۔ اسی حادثہ میں عروہ بن اسماء بن صلت رضیاللہعنہما بھی شہید ہوئے تھے ( پھر زبیر رضیاللہعنہ کے بیٹے جب پیدا ہوئے ) تو ان کا نام عروہ ، انہیں عروہ ابن اسماء رضیاللہعنہما کے نام پر رکھا گیا ۔ منذر بنعمرو رضیاللہعنہ اس حادثہ میں شہید ہوئے تھے ۔ ( اور زبیر رضیاللہعنہ کے دوسرے صاحب زادے کا نام ) منذر انہیں کے نام پر رکھا گیا تھا ۔
No comments:
Post a Comment