Monday, 13 February 2017

Sahih Bukhari Hadees No 4086

حدثني إبراهيم بن موسى ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا هشام بن يوسف ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن معمر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الزهري ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عمرو بن أبي سفيان الثقفي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال بعث النبي صلى الله عليه وسلم سرية عينا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأمر عليهم عاصم بن ثابت ـ وهو جد عاصم بن عمر بن الخطاب ـ فانطلقوا حتى إذا كان بين عسفان ومكة ذكروا لحي من هذيل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يقال لهم بنو لحيان ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فتبعوهم بقريب من مائة رام ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاقتصوا آثارهم حتى أتوا منزلا نزلوه فوجدوا فيه نوى تمر تزودوه من المدينة فقالوا هذا تمر يثرب‏.‏ فتبعوا آثارهم حتى لحقوهم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما انتهى عاصم وأصحابه لجئوا إلى فدفد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وجاء القوم فأحاطوا بهم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقالوا لكم العهد والميثاق إن نزلتم إلينا أن لا نقتل منكم رجلا‏.‏ فقال عاصم أما أنا فلا أنزل في ذمة كافر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم أخبر عنا نبيك‏.‏ فقاتلوهم حتى قتلوا عاصما في سبعة نفر بالنبل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبقي خبيب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وزيد ورجل آخر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأعطوهم العهد والميثاق ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما أعطوهم العهد والميثاق نزلوا إليهم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما استمكنوا منهم حلوا أوتار قسيهم فربطوهم بها‏.‏ فقال الرجل الثالث الذي معهما هذا أول الغدر‏.‏ فأبى أن يصحبهم فجرروه وعالجوه على أن يصحبهم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلم يفعل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقتلوه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وانطلقوا بخبيب وزيد حتى باعوهما بمكة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاشترى خبيبا بنو الحارث بن عامر بن نوفل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان خبيب هو قتل الحارث يوم بدر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمكث عندهم أسيرا حتى إذا أجمعوا قتله استعار موسى من بعض بنات الحارث أستحد بها فأعارته ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قالت فغفلت عن صبي لي فدرج إليه حتى أتاه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فوضعه على فخذه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما رأيته فزعت فزعة عرف ذاك مني ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وفي يده الموسى فقال أتخشين أن أقتله ما كنت لأفعل ذاك إن شاء الله‏.‏ وكانت تقول ما رأيت أسيرا قط خيرا من خبيب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لقد رأيته يأكل من قطف عنب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وما بمكة يومئذ ثمرة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإنه لموثق في الحديد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وما كان إلا رزق رزقه الله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فخرجوا به من الحرم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ليقتلوه فقال دعوني أصلي ركعتين‏.‏ ثم انصرف إليهم فقال لولا أن تروا أن ما بي جزع من الموت ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لزدت‏.‏ فكان أول من سن الركعتين عند القتل هو ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم قال اللهم أحصهم عددا ثم قال ما أبالي حين أقتل مسلما على أى شق كان لله مصرعي وذلك في ذات الإله وإن يشأ يبارك على أوصال شلو ممزع ثم قام إليه عقبة بن الحارث فقتله ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبعث قريش إلى عاصم ليؤتوا بشىء من جسده يعرفونه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان عاصم قتل عظيما من عظمائهم يوم بدر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فبعث الله عليه مثل الظلة من الدبر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فحمته من رسلهم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلم يقدروا منه على شىء‏.‏
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی ، انہیں معمر بن راشد نے ، انہیں زہری نے ، انہیں عمرو بن ابی سفیان ثقفی نے اور ان سے ابوہریرہ رضیاللہعنہ نے بیان کیا کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاسوسی کے لیے ایک جماعت ( مکہ ، قریش کی خبر لانے کے لیے ) بھیجی اور اس کا امیر عاصم بن ثابت رضیاللہعنہ کو بنایا ، جو عاصم بن عمربنخطاب کے نانا ہیں ۔ یہ جماعت روانہ ہوئی اور جب عسفان اور مکہ کے درمیان پہنچی تو قبیلہہذیل کے ایک قبیلے کو جسے بنو لحیان کہا جاتا تھا ، ان کا علم ہو گیا اور قبیلہ کے تقریباً سو تیراندازوں نے ان کا پیچھا کیا اور ان کے نشانات قدم کو تلاش کرتے ہوئے چلے ۔ آخر ایک ایسی جگہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں صحابہ کی اس جماعت نے پڑاؤ کیا تھا ۔ وہاں ان کھجوروں کی گٹھلیاں ملیں جو صحابہ مدینہ سے لائے تھے ۔ قبیلہ والوں نے کہا کہ یہ تو یثرب کی کھجور ( کی گھٹلی ) ہے اب انہوں نے پھر تلاش شروع کی اور صحابہ کو پا لیا ۔ عاصم رضیاللہعنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو صحابہ کی اس جماعت نے ایک ٹیلے پر چڑھ کر پناہ لی ۔ قبیلہ والوں نے وہاں پہنچ کر ٹیلہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور صحابہ سے کہا کہ ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ اگر تم نے ہتھیار ڈال دیئے تو ہم تم میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے ۔ اس پر عاصم رضیاللہعنہ بولے کہ میں تو کسی کافر کی حفاظت وامن میں خود کو کسی صورت میں بھی نہیں دے سکتا ۔ اے اللہ ! ہمارے ساتھ پیش آنے والے حالات کی خبر اپنے نبی کو پہنچا دے ۔ چنانچہ ان صحابہ نے ان سے قتال کیا اور عاصم اپنے سات ساتھیوں کے ساتھ ان کے تیر وں سے شہید ہو گئے ۔ خبیب ، زید اور ایک اور صحابی ان کے حملوں سے ا بھی محفوظ تھے ۔ قبیلہ والوں نے پھر حفاظت وامان کا یقین دلایا ۔ یہ حضرات ان کی یقین دہانی پر اتر آئے ۔ پھر جب قبیلہ والوں نے انہیں پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا تو ان کی کمان کی تانت اتار کر ان صحابہ کو انہیں سے باندھ دیا ۔ تیسرے صحابہ جو خبیب اور زید کے ساتھ تھے ، انہوں نے کہا کہ یہ تمہاری پہلی غداری ہے ۔ انہوں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ۔ پہلے تو قبیلہ والوں نے انہیں گھسیٹا اور اپنے ساتھ لے جانے کے لیے زور لگا تے رہے لیکن جب وہ کسی طرح تیار نہ ہوئے تو انہیں وہیں قتل کر دیا اور خبیب اور زید کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے ، پھر انہیں مکہ میں لا کر بیچ دیا ۔ خبیب رضیاللہعنہ کو تو حارث بنعامر بن نوفل کے بیٹوں نے خرید لیا کیونکہ خبیب رضیاللہعنہ نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا ۔ وہ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قید ی کی حیثیت سے رہے ۔ جس وقت ان سب کا خبیب رضیاللہعنہ کے قتل پر اتفاق ہو چکا تو اتفاق سے انہیں دنوں حارث کی ایک لڑکی ( زینب ) سے انہوں نے موئے زیر ناف صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا اور انہوں نے ان کو استرہ بھی دے دیا تھا ۔ ان کا بیان تھا کہ میرا لڑکا میری غفلت میں خبیب رضیاللہعنہ کے پاس چلا گیا ۔ انہوں نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا ۔ میں نے جو اسے اس حالت میں دیکھا تو بہت گھبرائی ۔ انہوں نے میری گھبراہٹ کو جان لیا ، استرہ ان کے ہاتھ میں تھا ۔ انہوں نے مجھ سے کہا ، کیا تمہیں اس کا خطرہ ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا ؟ انشاءاللہ میں ہرگز ایسا نہیں کر سکتا ۔ ان کا بیان تھا کہ خبیب رضیاللہعنہ سے بہتر قیدی میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ میں نے انہیں انگور کا خوشہ کھاتے ہوئے دیکھاحالانکہ اس وقت مکہ میں کسی طرح کاپھل موجود نہیں تھا جبکہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے بھی تھے ، تو وہ اللہ کی بھیجی ہوئی روزی تھی ۔ پھر حارث کے بیٹے قتل کرنے کے لیے انہیں لے کر حرم کے حدود سے باہر گئے ۔ خبیب رضیاللہعنہ نے ان سے فرمایا مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دو ( انہوں نے اجازت دے دی اور ) جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ان سے فرمایا کہ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں موت سے گھبرا گیا ہوں تو اور زیادہ نماز پڑھتا ۔ خبیب رضیاللہعنہ ہی پہلے وہ شخص ہیں جن سے قتل سے پہلے دو رکعت نماز کا طریقہ چلا ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے ان کے لیے بددعا کی ، اے اللہ ! انہیں ایک ایک کر کے ہلاک کر دے اور یہ اشعار پڑھے ” جب کہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کس پہلو پر اللہ کی راہ میں مجھے قتل کیا جائے گا ۔ یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر وہ چاہے گا تو جسم کے ایک ایک کٹے ہوئے ٹکڑے میں برکت دے گا ۔ “ پھر عقبہ بن حارث نے کھڑے ہو کر انہیں شہید کر دیا اور قریش نے عاصم رضیاللہعنہ کی لاش کے لیے آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کوئی بھی حصہ لائیں جس سے انہیں پہچانا جا سکے ۔ عاصم رضیاللہعنہ نے قریش کے ایک بہت بڑے ، سردارکو بدر کی لڑائی میں قتل کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کی ایک فوج کو بادل کی طرح ان کے اوپر بھیجا اور ان بھڑوں نے ان کی لاش کو قریش کے آدمیوں سے محفوظ رکھا اور قریش کے بھیجے ہوئے یہ لوگ ( ان کے پاس نہ پھٹک سکے ) کچھ نہ کر سکے ۔

No comments:

Post a Comment