Monday, 30 January 2017

Sahih Bukhari Hadith No 344

حدثنا مسدد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثني يحيى بن سعيد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا عوف ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا أبو رجاء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عمران ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال كنا في سفر مع النبي صلى الله عليه وسلم وإنا أسرينا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حتى كنا في آخر الليل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقعنا وقعة ولا وقعة أحلى عند المسافر منها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فما أيقظنا إلا حر الشمس ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان أول من استيقظ فلان ثم فلان ثم فلان ـ يسميهم أبو رجاء فنسي عوف ـ ثم عمر بن الخطاب الرابع ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا نام لم يوقظ حتى يكون هو يستيقظ ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لأنا لا ندري ما يحدث له في نومه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما استيقظ عمر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ورأى ما أصاب الناس ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان رجلا جليدا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فكبر ورفع صوته بالتكبير ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فما زال يكبر ويرفع صوته بالتكبير حتى استيقظ لصوته النبي صلى الله عليه وسلم فلما استيقظ شكوا إليه الذي أصابهم قال ‏"‏ لا ضير ـ أو لا يضير ـ ارتحلوا ‏"‏‏.‏ فارتحل فسار غير بعيد ثم نزل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فدعا بالوضوء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فتوضأ ونودي بالصلاة فصلى بالناس ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما انفتل من صلاته إذا هو برجل معتزل لم يصل مع القوم قال ‏"‏ ما منعك يا فلان أن تصلي مع القوم ‏"‏‏.‏ قال أصابتني جنابة ولا ماء‏.‏ قال ‏"‏ عليك بالصعيد ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإنه يكفيك ‏"‏‏.‏ ثم سار النبي صلى الله عليه وسلم فاشتكى إليه الناس من العطش فنزل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فدعا فلانا ـ كان يسميه أبو رجاء نسيه عوف ـ ودعا عليا فقال ‏"‏ اذهبا فابتغيا الماء ‏"‏‏.‏ فانطلقا فتلقيا امرأة بين مزادتين ـ أو سطيحتين ـ من ماء على بعير لها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقالا لها أين الماء قالت عهدي بالماء أمس هذه الساعة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ونفرنا خلوفا‏.‏ قالا لها انطلقي إذا‏.‏ قالت إلى أين قالا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ قالت الذي يقال له الصابئ قالا هو الذي تعنين فانطلقي‏.‏ فجاءا بها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وحدثاه الحديث قال فاستنزلوها عن بعيرها ودعا النبي صلى الله عليه وسلم بإناء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ففرغ فيه من أفواه المزادتين ـ أو السطيحتين ـ وأوكأ أفواههما ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأطلق العزالي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ونودي في الناس اسقوا واستقوا‏.‏ فسقى من شاء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ واستقى من شاء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان آخر ذاك أن أعطى الذي أصابته الجنابة إناء من ماء قال ‏"‏ اذهب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأفرغه عليك ‏"‏‏.‏ وهى قائمة تنظر إلى ما يفعل بمائها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وايم الله لقد أقلع عنها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإنه ليخيل إلينا أنها أشد ملأة منها حين ابتدأ فيها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اجمعوا لها ‏"‏‏.‏ فجمعوا لها من بين عجوة ودقيقة وسويقة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حتى جمعوا لها طعاما ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجعلوها في ثوب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وحملوها على بعيرها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ووضعوا الثوب بين يديها قال لها ‏"‏ تعلمين ما رزئنا من مائك شيئا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولكن الله هو الذي أسقانا ‏"‏‏.‏ فأتت أهلها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقد احتبست عنهم قالوا ما حبسك يا فلانة قالت العجب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لقيني رجلان فذهبا بي إلى هذا الذي يقال له الصابئ ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ففعل كذا وكذا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فوالله إنه لأسحر الناس من بين هذه وهذه‏.‏ وقالت بإصبعيها الوسطى والسبابة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فرفعتهما إلى السماء ـ تعني السماء والأرض ـ أو إنه لرسول الله حقا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فكان المسلمون بعد ذلك يغيرون على من حولها من المشركين ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يصيبون الصرم الذي هي منه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقالت يوما لقومها ما أرى أن هؤلاء القوم يدعونكم عمدا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فهل لكم في الإسلام فأطاعوها فدخلوا في الإسلام‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے ، کہا کہ ہم سے عوف نے ، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے ، انھوں نے کہا کہ
ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی ( پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے ) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی ۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا ۔ پھر فلاں پھر فلاں ۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے ۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے ۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں ۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے ۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے ۔ اسی طرح باآواز بلند ، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے ۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں ۔ سفر شروع کرو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور چلے ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا ۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو ۔ یہی تجھ کو کافی ہے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور فلاں ( یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما ) کو بلایا ۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا ۔ ان دونوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو ۔ یہ دونوں نکلے ۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی ۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی ( یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں ) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں ۔ انھوں نے اس سے کہا ۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو ۔ اس نے پوچھا ، کہاں چلوں ؟ انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ۔ اس نے کہا ، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں ۔ انھوں نے کہا ، یہ وہی ہیں ، جسے تم کہہ رہی ہو ۔ اچھا اب چلو ۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں لائے ۔ اور سارا واقعہ بیان کیا ۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا ۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے ۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا ۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں ۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا ( اور سب سیر ہو گئے ) آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، لے جا اور غسل کر لے ۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور خدا کی قسم ! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا ، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے ( کھانے کی چیز ) جمع کرو ۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور ( عجوہ ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا ۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا ۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا ۔ پھر وہ اپنے گھر آئی ، دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی ! کیوں اتنی دیر ہوئی ؟ اس نے کہا ، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں ۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا ، خدا کی قسم ! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا ۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی ۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے ۔ اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے ۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے ۔ یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے ؟ قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی ۔ ¤ حضرت ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ صبا کے معنی ہیں اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا ہے کہ صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتے ہیں اور سورۃ یوسف میں جو اصب کا لفظ ہے وہاں بھی اس کے معنی امل کے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment