وقال لنا أحمد بن حنبل حدثنا يحيى بن سعيد ، عن سفيان ، حدثني حبيب ، عن سعيد ، عن ابن عباس ، حرم من النسب سبع ، ومن الصهر سبع. ثم قرأ { حرمت عليكم أمهاتكم} الآية. وجمع عبد الله بن جعفر بين ابنة علي وامرأة علي. وقال ابن سيرين لا بأس به. وكرهه الحسن مرة ثم قال لا بأس به. وجمع الحسن بن الحسن بن علي بين ابنتى عم في ليلة ، وكرهه جابر بن زيد للقطيعة ، وليس فيه تحريم لقوله تعالى { وأحل لكم ما وراء ذلكم} وقال عكرمة عن ابن عباس إذا زنى بأخت امرأته لم تحرم عليه امرأته. ويروى عن يحيى الكندي عن الشعبي وأبي جعفر ، فيمن يلعب بالصبي إن أدخله فيه ، فلا يتزوجن أمه ، ويحيى هذا غير معروف ، لم يتابع عليه. وقال عكرمة عن ابن عباس إذا زنى بها لم تحرم عليه امرأته. ويذكر عن أبي نصر أن ابن عباس حرمه. وأبو نصر هذا لم يعرف بسماعه من ابن عباس. ويروى عن عمران بن حصين وجابر بن زيد والحسن وبعض أهل العراق تحرم عليه. وقال أبو هريرة لا تحرم حتى يلزق بالأرض يعني يجامع. وجوزه ابن المسيب وعروة والزهري. وقال الزهري قال علي لا تحرم. وهذا مرسل.
اور امام احمد بن حنبل نے مجھ سے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ، انہوں نے سفیا ن ثوری سے ، کہا مجھ سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا ، انہوں نے سعیدبنجبیر سے ، انہوں نے ابنعباس رضیاللہعنہما سے ، انہوں نے کہا
خون کی روسے تم پر سات رشتے حرام ہیں اور شادی کی وجہ سے ( یعنی سسرال کی طرف سے ) سات رشتے بھی ۔ انہوں نے یہ آیت پڑھی ۔ حرمت علیکم امہاتکم آخر تک اور عبداللہبنجعفر بنابیطالب نے علی رضیاللہعنہ کی صاحبزادی زینب اور علی کی بی بی ( لیلٰی بنت مسعود ) دونوں سے نکاح کیا ، ان کو جمع کیا اور ابنسیرین نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور امام حسنبصری نے ایک بار تو اسے مکروہ کہا پھر کہنے لگے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور حسن بن حسن بن علی بنابیطالب نے اپنے دونوں چاچاؤں ( یعنی محمد بن علی اور عمرو بن علی ) کی بیٹیوں کو ایک ساتھ میں نکاح میں لے لیا اور جابر بنزید تابعی نے اس کو مکروہ جانا ، اس خیال سے کہ بہنوںمیں جلا پانہ پیدا ہو مگر یہ کچھ حرام نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے سوا اور سب عورتیں تم کو حلال ہیں اور عکرمہ نے ابنعباس رضی اللہ عنہماسے روایت کیا اگر کسی نے اپنی سالی سے زنا کیا تو اس کی بیوی ( سالی کی بہن ) اس پر حرام نہ ہو گی اور یحییٰ بنقیس کندی سے روایت ہے ، انہوں نے شعبی اور جعفر سے ، دونوں نے کہا اگر کوئی شخص لواطت کرے اور کسی لونڈے کے دخول کر دے تو اب اس کی ماں سے نکاح نہ کرے اور یحییٰ راوی مشہور شخص نہیں ہے اور نہ کسی اور نے اس کے ساتھ ہو کر یہ روایت کی ہے اور عکرمہ نے ابنعباس رضیاللہعنہما سے روایت کی کہ اگر کسی نے اپنی ساس سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہ ہو گی اور ابو نصر نے ابنعباس رضیاللہعنہما سے روایت کی کہ حرام ہو جائے گی اور اس راوی ابو نصر کا حال معلوم نہیں ۔ اس نے ابنعباس سے سنا ہے یا نہیں ( لیکن ابوزرعہ نے اسے ثقہ کہا ہے ) اور عمر ان بن حصین اور جابر بنزید اور حسنبصری اور بعض عراق والوں ( امام ثوری اوراما م ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) کا یہی قول ہے کہ حرام ہو جائے گی اور ابوہریرہ رضیاللہعنہ نے کہا حرام نہ ہو گی جب تک اس کی ماں ( اپنی خوشدامن ) کو زمین سے نہ لگا دے ( یعنی اس سے جماع نہ کرے ) اور سعیدبنمسیب اور عروہ اور زہری نے اس کے متعلق کہا ہے کہ اگر کوئی ساس سے زنا کرے تب بھی اس کی بیٹی یعنی زنا کرنیوالے کی بیوی اس پر حرام نہ ہو گی ( اس کو رکھ سکتا ہے اور زہری نے کہا علی رضیاللہعنہ نے فرمایا اس کی جورو اس پر حرام نہ ہو گی اور یہ روایت منقطع ہے ۔
No comments:
Post a Comment