Friday, 17 February 2017

Sahih Bukhari Hadees No 4822

حدثنا يحيى ،‏‏‏‏ حدثنا وكيع ،‏‏‏‏ عن الأعمش ،‏‏‏‏ عن أبي الضحى ،‏‏‏‏ عن مسروق ،‏‏‏‏ قال دخلت على عبد الله فقال إن من العلم أن تقول لما لا تعلم الله أعلم ،‏‏‏‏ إن الله قال لنبيه صلى الله عليه وسلم ‏ {‏ قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين‏}‏ إن قريشا لما غلبوا النبي صلى الله عليه وسلم واستعصوا عليه قال ‏"‏ اللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف ‏"‏‏.‏ فأخذتهم سنة أكلوا فيها العظام والميتة من الجهد ،‏‏‏‏ حتى جعل أحدهم يرى ما بينه وبين السماء كهيئة الدخان من الجوع‏.‏ قالوا ‏ {‏ ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون‏}‏ فقيل له إن كشفنا عنهم عادوا‏.‏ فدعا ربه فكشف عنهم ،‏‏‏‏ فعادوا ،‏‏‏‏ فانتقم الله منهم يوم بدر ،‏‏‏‏ فذلك قوله تعالى ‏ {‏ يوم تأتي السماء بدخان مبين‏}‏ إلى قوله جل ذكره ‏ {‏ إنا منتقمون‏}‏
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابوالضحیٰ نے ، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں عبداللہبنمسعود رضیاللہعنہما کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ
یہ بھی علم ہی ہے کہ تمہیں اگر کوئی بات معلوم نہیں ہے تو اس کے متعلق یوں کہہ دو کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ میں تم سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرتا ہوں جب قریش حضور اکرم کو تکلیف پہنچانے اور آپ کے ساتھ معاندانہ روش میں برابر بڑھتے ہی رہے تو آپ نے ان کے لئے بددعا کی کہ اے اللہ ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط کے ذریعہ کر جیسا کہ یوسف علیہالسلام کے زمانہ میں پڑا تھا ۔ چنانچہ قحط پڑا اور بھوک کی شدت کا یہ حال ہوا کہ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے لگ گئے ۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے لیکن فاقہ کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا ۔ آخر انہوں نے کہا کہ ” اے ہمارے پروردگار ! ہم سے اس عذاب کو دور کر ، ہم ضرور ایمان لے آئیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہم نے یہ عذاب دور کر دیا تو پھر بھی تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے “ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا کی اور یہ عذاب ان سے ہٹ گیا لیکن وہ پھر بھی کفر وشرک پر ہی جمے رہے ، اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے بدر کی لڑائی میں لیا ۔ یہی واقعہ آیت یوم تاتی السماء بدخان مبین آخر تک میں بیان ہوا ہے ۔

No comments:

Post a Comment