حدثنا يحيى ، حدثنا أبو معاوية ، عن الأعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، قال قال عبد الله إنما كان هذا لأن قريشا لما استعصوا على النبي صلى الله عليه وسلم دعا عليهم بسنين كسني يوسف ، فأصابهم قحط وجهد حتى أكلوا العظام ، فجعل الرجل ينظر إلى السماء فيرى ما بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد ، فأنزل الله تعالى { فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم} قال فأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقيل يا رسول الله استسق الله لمضر ، فإنها قد هلكت. قال " لمضر إنك لجريء ". فاستسقى فسقوا. فنزلت { إنكم عائدون} فلما أصابتهم الرفاهية عادوا إلى حالهم حين أصابتهم الرفاهية. فأنزل الله عز وجل { يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون} قال يعني يوم بدر.
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے مسلم نے ، ان سے مسروق نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہبنمسعود رضیاللہعنہما نے بیان کیا کہ
یہ ( قحط ) اس لئے پڑا تھا کہ قریش جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے کی بجائے شرک پر جمے رہے تو آپ نے ان کے لئے ایسے قحط کی بددعا کی جیسا یوسف علیہالسلام کے زمانہ میں پڑا تھا ۔ چنانچہ قحط کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ ہڈیاں تک کھانے لگے ۔ لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھاتے لیکن بھوک اور فاقہ کی شدت کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف نظر آنے والا دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھاجائے ۔ یہ ایک دردناک عذاب ہو گا “ ۔ بیان کیا کہ پھر ایک صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ! قبیلہمضر کے لئے بارش کی دعا کیجئے کہ وہ برباد ہو چکے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، مضر کے حق میں دعا کرنے کے لئے کہتے ہو ، تم بڑے جری ہو ، آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور بارش ہوئی ۔ اس پر آیت انکم عائدون نازل ہوئی ( یعنی اگرچہ تم نے ایمان کا وعدہ کیا ہے لیکن تم کفر کی طرف پھر لوٹ جاؤ گے ) چنانچہ جب پھر ان میں خوشحالی ہوئی تو شرک کی طرف لوٹ گئے ( اور اپنے ایمان کے وعدے کو بھلا دیا ) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” جس روز ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ( اس روز ) ہم پورا بدلہ لے لیں گے “ ۔ بیان کیا اس آیت سے مراد بدر کی لڑائی ہے ۔
No comments:
Post a Comment