حدثنا موسى ، عن أبي عوانة ، عن مغيرة ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، دخلت الشأم فصليت ركعتين ، فقلت اللهم يسر لي جليسا. فرأيت شيخا مقبلا ، فلما دنا قلت أرجو أن يكون استجاب. قال من أين أنت قلت من أهل الكوفة. قال أفلم يكن فيكم صاحب النعلين والوساد والمطهرة أولم يكن فيكم الذي أجير من الشيطان أولم يكن فيكم صاحب السر الذي لا يعلمه غيره كيف قرأ ابن أم عبد { والليل} فقرأت { والليل إذا يغشى * والنهار إذا تجلى * والذكر والأنثى}. قال أقرأنيها النبي صلى الله عليه وسلم فاه إلى في ، فما زال هؤلاء حتى كادوا يردوني.
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا ، ان سے ابوعوانہ نے ، ان سے مغیرہ نے ، ان سے ابراہیم نے ، ان سے علقمہ نے کہ
میں شام پہنچا تو سب سے پہلے میں نے دو رکعت نماز پڑھی اور یہ دعا کی کہ اے اللہ ! مجھے کسی ( نیک ) ساتھی کی صحبت سے فیض یابی کی توفیق عطا فرما ، چنانچہ میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ آ رہے ہیں ، جب وہ قریب آ گئے تو میں نے سوچا کہ شاید میری دعا قبول ہو گئی ہے ۔ انہوں نے دریافت فرمایا : آپ کا وطن کہاں ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں کوفہ کا رہنے والا ہوں ، اس پر انہوں نے فرمایا : کیا تمہارے یہاں صاحب نعلین ، صاحب و سادہ و مطہرہ ( عبداللہبنمسعود رضیاللہعنہما ) نہیں ہیں ؟ کیا تمہارے یہاں وہ صحابی نہیں ہیں جنہیں شیطان سے ( اللہ کی ) پناہ مل چکی ہے ۔ ( یعنی عماربنیاسر رضیاللہعنہ ) کیا تمہارے یہاں سربستہ رازوں کے جاننے والے نہیں ہیں کہ جنہیں ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ( پھر دریافت فرمایا ) ابن ام عبد ( عبداللہبنمسعود رضیاللہعنہما ) آیت واللیل کی قرآت کس طرح کرتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ واللیل اذا یغشیٰ والنھار اذا تجلی والذکر والانثی آپ نے فرمایا کہ مجھے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زبان مبارک سے اسی طرح سکھایا تھا ۔ لیکن اب شام والے مجھے اس طرح قرآت کرنے سے ہٹانا چاہتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment