Saturday, 11 February 2017

Sahih Bukhari Hadees No 3173

حدثنا مسدد ،‏‏‏‏ حدثنا بشر ـ هو ابن المفضل ـ حدثنا يحيى ،‏‏‏‏ عن بشير بن يسار ،‏‏‏‏ عن سهل بن أبي حثمة ،‏‏‏‏ قال انطلق عبد الله بن سهل ومحيصة بن مسعود بن زيد إلى خيبر ،‏‏‏‏ وهى يومئذ صلح ،‏‏‏‏ فتفرقا ،‏‏‏‏ فأتى محيصة إلى عبد الله بن سهل وهو يتشحط في دم قتيلا ،‏‏‏‏ فدفنه ثم قدم المدينة ،‏‏‏‏ فانطلق عبد الرحمن بن سهل ومحيصة وحويصة ابنا مسعود إلى النبي صلى الله عليه وسلم ،‏‏‏‏ فذهب عبد الرحمن يتكلم فقال ‏"‏ كبر كبر ‏"‏‏.‏ وهو أحدث القوم ،‏‏‏‏ فسكت فتكلما فقال ‏"‏ أتحلفون وتستحقون قاتلكم أو صاحبكم ‏"‏‏.‏ قالوا وكيف نحلف ولم نشهد ولم نر قال ‏"‏ فتبريكم يهود بخمسين ‏"‏‏.‏ فقالوا كيف نأخذ أيمان قوم كفار فعقله النبي صلى الله عليه وسلم من عنده‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے ، ان سے بشیر بن یسار نے اور ان سے سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ
عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما خیبر گئے ۔ ان دنوں ( خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی ) صلح تھی ۔ پھر دونوں حضرات ( خیبر پہنچ کر اپنے اپنے کام کے لیے ) جدا ہو گئے ۔ اس کے بعد محیصہ رضی اللہ عنہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ خون میں لوٹ رہے ہیں ۔ کسی نے ان کو قتل کر ڈالا ، خیر محیصہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دفن کر دیا ۔ پھر مدینہ آئے ، اس کے بعد عبدالرحمن بن سہل ( عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ) اور مسعود کے دونوں صاحبزادے محیصہ اور حویصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، گفتگو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے شروع کی ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کہ جو تم لوگوں میں عمر میں بڑے ہوں وہ بات کریں ۔ عبدالرحمن سب سے کم عمر تھے ، وہ چپ ہو گئے ۔ اور محیصہ اور حویصہ نے بات شروع کی ۔ آپ نے دریافت کیا ، کیا تم لوگ اس پر قسم کھا سکتے ہو ، کہ جس شخص کو تم قاتل کہہ رہے ہو اس پر تمہارا حق ثابت ہو سکے ۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم ایک ایسے معاملے میں کس طرح قسم کھا سکتے ہیں جس کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر کیا یہود تمہارے دعوے سے اپنی برات اپنی طرف سے پچاس قسمیں کھا کر کے کر دیں ؟ ان لوگوں نے عرض کیا کہ کفار کی قسموں کا ہم کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے پاس سے ان کو دیت ادا کر دی ۔

No comments:

Post a Comment