Sunday, 29 January 2017

Sahih Bukhari Hadith No 122

حدثنا عبد الله بن محمد ،‏‏‏‏ قال حدثنا سفيان ،‏‏‏‏ قال حدثنا عمرو ،‏‏‏‏ قال أخبرني سعيد بن جبير ،‏‏‏‏ قال قلت لابن عباس إن نوفا البكالي يزعم أن موسى ليس بموسى بني إسرائيل ،‏‏‏‏ إنما هو موسى آخر‏.‏ فقال كذب عدو الله ،‏‏‏‏ حدثنا أبى بن كعب عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ قام موسى النبي خطيبا في بني إسرائيل ،‏‏‏‏ فسئل أى الناس أعلم فقال أنا أعلم‏.‏ فعتب الله عليه ،‏‏‏‏ إذ لم يرد العلم إليه ،‏‏‏‏ فأوحى الله إليه أن عبدا من عبادي بمجمع البحرين هو أعلم منك‏.‏ قال يا رب وكيف به فقيل له احمل حوتا في مكتل فإذا فقدته فهو ثم ،‏‏‏‏ فانطلق وانطلق بفتاه يوشع بن نون ،‏‏‏‏ وحملا حوتا في مكتل ،‏‏‏‏ حتى كانا عند الصخرة وضعا رءوسهما وناما فانسل الحوت من المكتل فاتخذ سبيله في البحر سربا ،‏‏‏‏ وكان لموسى وفتاه عجبا ،‏‏‏‏ فانطلقا بقية ليلتهما ويومهما فلما أصبح قال موسى لفتاه آتنا غداءنا ،‏‏‏‏ لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا ،‏‏‏‏ ولم يجد موسى مسا من النصب حتى جاوز المكان الذي أمر به‏.‏ فقال له فتاه أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت ،‏‏‏‏ قال موسى ذلك ما كنا نبغي ،‏‏‏‏ فارتدا على آثارهما قصصا ،‏‏‏‏ فلما انتهيا إلى الصخرة إذا رجل مسجى بثوب ـ أو قال تسجى بثوبه ـ فسلم موسى‏.‏ فقال الخضر وأنى بأرضك السلام فقال أنا موسى‏.‏ فقال موسى بني إسرائيل قال نعم‏.‏ قال هل أتبعك على أن تعلمني مما علمت رشدا قال إنك لن تستطيع معي صبرا ،‏‏‏‏ يا موسى إني على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه أنت ،‏‏‏‏ وأنت على علم علمكه لا أعلمه‏.‏ قال ستجدني إن شاء الله صابرا ،‏‏‏‏ ولا أعصي لك أمرا ،‏‏‏‏ فانطلقا يمشيان على ساحل البحر ليس لهما سفينة ،‏‏‏‏ فمرت بهما سفينة ،‏‏‏‏ فكلموهم أن يحملوهما ،‏‏‏‏ فعرف الخضر ،‏‏‏‏ فحملوهما بغير نول ،‏‏‏‏ فجاء عصفور فوقع على حرف السفينة ،‏‏‏‏ فنقر نقرة أو نقرتين في البحر‏.‏ فقال الخضر يا موسى ،‏‏‏‏ ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا كنقرة هذا العصفور في البحر‏.‏ فعمد الخضر إلى لوح من ألواح السفينة فنزعه‏.‏ فقال موسى قوم حملونا بغير نول ،‏‏‏‏ عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق أهلها قال ألم أقل إنك لن تستطيع معي صبرا قال لا تؤاخذني بما نسيت‏.‏ فكانت الأولى من موسى نسيانا‏.‏ فانطلقا فإذا غلام يلعب مع الغلمان ،‏‏‏‏ فأخذ الخضر برأسه من أعلاه فاقتلع رأسه بيده‏.‏ فقال موسى أقتلت نفسا زكية بغير نفس قال ألم أقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا ـ قال ابن عيينة وهذا أوكد ـ فانطلقا حتى إذا أتيا أهل قرية استطعما أهلها ،‏‏‏‏ فأبوا أن يضيفوهما ،‏‏‏‏ فوجدا فيها جدارا يريد أن ينقض فأقامه‏.‏ قال الخضر بيده فأقامه‏.‏ فقال له موسى لو شئت لاتخذت عليه أجرا‏.‏ قال هذا فراق بيني وبينك ‏"‏‏.‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يرحم الله موسى ،‏‏‏‏ لوددنا لو صبر حتى يقص علينا من أمرهما ‏"‏‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد المسندی نے بیان کیا ، ان سے سفیان نے ، ان سے عمرو نے ، انہیں سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ
نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ( جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے ، ( یہ سن کر ) ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے ۔ ہم سے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ ( ایک روز ) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا ، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ میں ہوں ۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انھوں نے علم کو خدا کے حوالے کیوں نہ کر دیا ۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے ۔ ( جہاں فارس اور روم کے سمندر ملتے ہیں ) وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے ، موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے پروردگار ! میری ان سے ملاقات کیسے ہو ؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو ، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں ( وہیں ) ملے گا ۔ تب موسیٰ علیہ السلام چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انھوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی ، جب ( ایک ) پتھر کے پاس پہنچے ، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی ، پھر دونوں باقی رات اور دن میں ( جتنا وقت باقی تھا ) چلتے رہے ، جب صبح ہوئی موسیٰ علیہ السلام نے خادم سے کہا ، ہمارا ناشتہ لاؤ ، اس سفر میں ہم نے ( کافی ) تکلیف اٹھائی ہے اور موسیٰ علیہ السلام بالکل نہیں تھکے تھے ، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے ، جہاں تک انہیں جانے کا حکم ملا تھا ، تب ان کے خادم نے کہا ، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا ، ( بقول بعض صخرہ کے نیچے آب حیات تھا ، وہ اس مچھلی پر پڑا ، اور وہ زندہ ہو کر بقدرت الٰہی دریا میں چل دی ) ( یہ سن کر ) موسیٰ علیہ السلام بولے کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی ، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے ، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے ( موجود ہے ) موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا ، خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہاری سرزمین میں سلام کہاں ؟ پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ ( علیہ السلام ) ہوں ، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہاں ! پھر کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں ، تاکہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں ۔ خضر علیہ السلام بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے ۔ اسے موسیٰ ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا ۔ ( اس پر ) موسیٰ نے کہا کہ خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا ۔ پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے ، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری ، تو کشتی والوں سے انھوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو ۔ خضر علیہ السلام کو انھوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا ، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی ، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں ( اسے دیکھ کر ) خضر علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہو گا جتنا اس چڑیا نے سمندر ( کے پانی ) سے پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا ، موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر ( مفت میں ) سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی ( کی لکڑی ) اکھاڑ ڈالی تاکہ یہ ڈوب جائیں ، خضر علیہ السلام بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے ؟ ( اس پر ) موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھول پر میری گرفت نہ کرو ۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا ۔ پھر دونوں چلے ( کشتی سے اتر کر ) ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ، خضر علیہ السلام نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کر دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے ایک بےگناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا ( غضب ہو گیا ) خضر علیہ السلام بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے ۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اس کلام میں پہلے سے زیادہ تاکید ہے ( کیونکہ پہلے کلام میں لفظ لک نہیں کہا تھا ، اس میں لک زائد کیا ، جس سے تاکید ظاہر ہے ) پھر دونوں چلتے رہے ۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے ، ان سے کھانا لینا چاہا ۔ انھوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا ۔ انھوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی ۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کر دیا ۔ موسیٰ بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو ( گاؤں والوں سے ) اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے ۔ خضر نے کہا کہ ( بس اب ) ہم اور تم میں جدائی کا وقت آ گیا ہے ۔ جناب محبوب کبریا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے ، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان کئے جاتے ( اور ہمارے سامنے روشنی میں آتے ، مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عجلت نے اس علم لدنی کے سلسلہ کو جلد ہی منقطع کرا دیا ) محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن خشرم نے یہ حدیث بیان کی ، ان سے سفیان بن عیینہ نے پوری کی پوری بیان کی ۔

No comments:

Post a Comment