Sunday, 29 January 2017

Sahih Bukhari Hadith No 112

حدثنا أبو نعيم الفضل بن دكين ،‏‏‏‏ قال حدثنا شيبان ،‏‏‏‏ عن يحيى ،‏‏‏‏ عن أبي سلمة ،‏‏‏‏ عن أبي هريرة ،‏‏‏‏ أن خزاعة ،‏‏‏‏ قتلوا رجلا من بني ليث عام فتح مكة بقتيل منهم قتلوه ،‏‏‏‏ فأخبر بذلك النبي صلى الله عليه وسلم فركب راحلته ،‏‏‏‏ فخطب فقال ‏"‏ إن الله حبس عن مكة القتل ـ أو الفيل شك أبو عبد الله ـ وسلط عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم والمؤمنين ،‏‏‏‏ ألا وإنها لم تحل لأحد قبلي ،‏‏‏‏ ولا تحل لأحد بعدي ألا وإنها حلت لي ساعة من نهار ،‏‏‏‏ ألا وإنها ساعتي هذه حرام ،‏‏‏‏ لا يختلى شوكها ،‏‏‏‏ ولا يعضد شجرها ،‏‏‏‏ ولا تلتقط ساقطتها إلا لمنشد ،‏‏‏‏ فمن قتل فهو بخير النظرين إما أن يعقل ،‏‏‏‏ وإما أن يقاد أهل القتيل ‏"‏‏.‏ فجاء رجل من أهل اليمن فقال اكتب لي يا رسول الله‏.‏ فقال ‏"‏ اكتبوا لأبي فلان ‏"‏‏.‏ فقال رجل من قريش إلا الإذخر يا رسول الله ،‏‏‏‏ فإنا نجعله في بيوتنا وقبورنا‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إلا الإذخر ،‏‏‏‏ إلا الإذخر ‏"‏‏.
ہم سے ابونعیم الفضل بن دکین نے بیان کیا ، ان سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا ، وہ ابوسلمہ سے ، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
قبیلہ خزاعہ ( کے کسی شخص ) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا ، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی ، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا ۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس لفظ کو شک کے ساتھ سمجھو ، ایسا ہی ابونعیم وغیرہ نے القتل اور الفيل کہا ہے ۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگ الفيل کہتے ہیں ۔ ( پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) کہ اللہ نے ان پر اپنے رسول اور مسلمان کو غالب کر دیا اور سمجھ لو کہ وہ ( مکہ ) کسی کے لیے حلال نہیں ہوا ۔ نہ مجھ سے پہلے اور نہ ( آئندہ ) کبھی ہو گا اور میرے لیے بھی صرف دن کے تھوڑے سے حصہ کے لیے حلال کر دیا گیا تھا ۔ سن لو کہ وہ اس وقت حرام ہے ۔ نہ اس کا کوئی کانٹا توڑا جائے ، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں اور اس کی گری پڑی چیزیں بھی وہی اٹھائے جس کا منشاء یہ ہو کہ وہ اس چیز کا تعارف کرا دے گا ۔ تو اگر کوئی شخص مارا جائے تو ( اس کے عزیزوں کو ) اختیار ہے دو باتوں کا ، یا دیت لیں یا بدلہ ۔ اتنے میں ایک یمنی آدمی ( ابوشاہ نامی ) آیا اور کہنے لگا ( یہ مسائل ) میرے لیے لکھوا دیجیئے ۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوفلاں کے لیے ( یہ مسائل ) لکھ دو ۔ تو ایک قریشی شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ ! مگر اذخر ( یعنی اذخر کاٹنے کی اجازت دے دیجیئے ) کیونکہ اسے ہم گھروں کی چھتوں پر ڈالتے ہیں ۔ ( یا مٹی ملا کر ) اور اپنی قبروں میں بھی ڈالتے ہیں ( یہ سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( ہاں ) مگر اذخر ، مگر اذخر ۔

No comments:

Post a Comment