Friday, 17 February 2017

Sahih Bukhari Hadees No 4809

حدثنا قتيبة ،‏‏‏‏ حدثنا جرير ،‏‏‏‏ عن الأعمش ،‏‏‏‏ عن أبي الضحى ،‏‏‏‏ عن مسروق ،‏‏‏‏ قال دخلنا على عبد الله بن مسعود ،‏‏‏‏ قال يا أيها الناس من علم شيئا فليقل به ،‏‏‏‏ ومن لم يعلم فليقل الله أعلم ،‏‏‏‏ فإن من العلم أن يقول لما لا يعلم الله أعلم ،‏‏‏‏ قال الله عز وجل لنبيه صلى الله عليه وسلم ‏ {‏ قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين‏}‏ وسأحدثكم عن الدخان إن رسول الله صلى الله عليه وسلم دعا قريشا إلى الإسلام فأبطئوا عليه فقال ‏"‏ اللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف ‏"‏ ،‏‏‏‏ فأخذتهم سنة فحصت كل شىء حتى أكلوا الميتة والجلود حتى جعل الرجل يرى بينه وبين السماء دخانا من الجوع ،‏‏‏‏ قال الله عز وجل ‏ {‏ فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم‏}‏ قال فدعوا ‏ {‏ ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون * أنى لهم الذكرى وقد جاءهم رسول مبين * ثم تولوا عنه وقالوا معلم مجنون * إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون‏}‏ أفيكشف العذاب يوم القيامة قال فكشف ثم عادوا في كفرهم ،‏‏‏‏ فأخذهم الله يوم بدر قال الله تعالى ‏ {‏ يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون‏}‏‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابو الضحیٰ نے ، ان سے مسروق نے کہ
ہم عبداللہبنمسعود رضیاللہعنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ انہوں نے کہا اے لوگو ! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اگر علم نہ ہو تو کہے کہ اللہ ہی کو زیادہ علم ہے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہہ دیا تھا کہ ” آپ کہہ دیجئیے کہ میں تم سے اس قرآن یا تبلیغ وحی پر کوئی اجرت نہیں چاہتا ہوں اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہوں “ اور میں ” دخان “ ( دھوئیں ) کے بارے میں بتاؤں گا ( جس کا ذکر قرآن میں آیاہے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے تاخیر کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی اے اللہ ! ان پر یوسف علیہالسلام کے زمانہ کی سی قحطسالی کے ذریعہ میری مدد کر ۔ چنانچہ قحط پڑا اور اتنا زبر دست کہ ہر چیز ختم ہو گئی اور لوگ مردار اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے ۔ بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ حال تھا کہ آسمان کی طرف دھواں ہی دھواں نظر آتا ۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” پس انتظار کرو اس دن کا جب آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا ۔ یہ دردناک عذاب ہے ۔ “ بیان کیا کہ پھر قریش دعا کرنے لگے کہ ” اے ہمارے رب ! اس عذاب کو ہم سے ہٹا لے تو ہم ایمان لائیں گے لیکن وہ نصیحت سننے والے کہاں ہیں ان کے پاس تو رسول صاف معجزات و دلائل کے ساتھ آچکا اور وہ اس سے منہ موڑ چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اسے تو سکھایا جا رہا ہے ، یہ مجنون ہے ، بیشک ہم تھوڑے دنوں کے لئے ان سے عذاب ہٹا لیں گے یقیناً تم پھر کفر ہی کی طرف لوٹ جاؤ گے کیا قیامت میں بھی عذاب ہٹایا جائے گا ۔ “ ابنمسعود رضیاللہعنہما نے بیان کیا کہ پھر یہ عذاب تو ان سے دور کر دیا گیا لیکن جب وہ دوبارہ کفر میں مبتلا ہو گئے تو جنگبدر میں اللہ نے انہیں پکڑا ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں اسی طرف اشارہ ہے کہ ” جس دن ہم سخت پکڑ کریں گے ، بلاشبہ ہم بدلہ لینے والے ہیں ۔ “

No comments:

Post a Comment