حدثنا محمد بن سعيد الخزاعي ، حدثنا عبد الأعلى ، عن حميد ، قال سألت أنسا. حدثنا عمرو بن زرارة ، حدثنا زياد ، قال حدثني حميد الطويل ، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال غاب عمي أنس بن النضر عن قتال بدر فقال يا رسول الله ، غبت عن أول قتال قاتلت المشركين ، لئن الله أشهدني قتال المشركين ليرين الله ما أصنع ، فلما كان يوم أحد وانكشف المسلمون قال " اللهم إني أعتذر إليك مما صنع هؤلاء ـ يعني أصحابه ـ وأبرأ إليك مما صنع هؤلاء " ـ يعني المشركين ـ ثم تقدم ، فاستقبله سعد بن معاذ ، فقال يا سعد بن معاذ ، الجنة ، ورب النضر إني أجد ريحها من دون أحد. قال سعد فما استطعت يا رسول الله ما صنع. قال أنس فوجدنا به بضعا وثمانين ضربة بالسيف أو طعنة برمح أو رمية بسهم ، ووجدناه قد قتل وقد مثل به المشركون ، فما عرفه أحد إلا أخته ببنانه. قال أنس كنا نرى أو نظن أن هذه الآية نزلت فيه وفي أشباهه { من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه} إلى آخر الآية.
ہم سے محمد بن سعید خزاعی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے حمید نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا ( دوسری سند ) ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زیاد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ
میرے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں حاضر نہ ہو سکے ‘ اس لئے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں پہلی لڑائی ہی سے غائب رہا جو آپ نے مشرکین کے خلاف لڑی لیکن اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں ۔ پھر جب احد کی لڑائی کا موقع آیا اور مسلمان بھاگ نکلے تو انس بن نضر نے کہا کہ اے اللہ ! جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں اس سے معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ ان مشرکین نے کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں ۔ پھر وہ آگے بڑھے ( مشرکین کی طرف ) تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے سامنا ہوا ۔ ان سے انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا اے سعد بن معاذ ! میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور نضر ( ان کے باپ ) کے رب کی قسم میں جنت کی خوشبو احد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں ۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جو انہوں نے کر دکھایا اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد جب انس بن نضر رضی اللہ عنہ کو ہم نے پایا تو تلوار نیزے اور تیر کے تقریباً اسی زخم ان کے جسم پر تھے وہ شہید ہو چکے تھے مشرکوں نے ان کے اعضاء کاٹ دئیے تھے اور کوئی شخص انہیں پہچان نہ سکا تھا ‘ صرف ان کی بہن انگلیوں سے انہیں پہچان سکی تھیں ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہم سمجھتے ہیں ( یا آپ نے بجائےنری کے نظن کہا ) مطلب ایک ہی ہے کہ یہ آیت ان کے اور ان جیسے مومنین کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ ” مومنوں میں کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا “ آخر آیت تک ۔
No comments:
Post a Comment