Sunday, 5 November 2017

Jamia Tirmizi Hadith no 3471

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّی الْعَصْرَ هَمَسَ وَالْهَمْسُ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ تَحَرُّکُ شَفَتَيْهِ کَأَنَّهُ يَتَکَلَّمُ فَقِيلَ لَهُ إِنَّکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ هَمَسْتَ قَالَ إِنَّ نَبِيًّا مِنْ الْأَنْبِيَائِ کَانَ أُعْجِبَ بِأُمَّتِهِ فَقَالَ مَنْ يَقُومُ لِهَؤُلَائِ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ خَيِّرْهُمْ بَيْنَ أَنْ أَنْتَقِمَ مِنْهُمْ وَبَيْنَ أَنْ أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوَّهُمْ فَاخْتَارُوا النِّقْمَةَ فَسَلَّطَ عَلَيْهِمْ الْمَوْتَ فَمَاتَ مِنْهُمْ فِي يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفًا قَالَ وَکَانَ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ الْآخَرِ قَالَ کَانَ مَلِکٌ مِنْ الْمُلُوکِ وَکَانَ لِذَلِکَ الْمَلِکِ کَاهِنٌ يَکْهَنُ لَهُ فَقَالَ الْکَاهِنُ انْظُرُوا لِي غُلَامًا فَهِمًا أَوْ قَالَ فَطِنًا لَقِنًا فَأُعَلِّمَهُ عِلْمِي هَذَا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ أَمُوتَ فَيَنْقَطِعَ مِنْکُمْ هَذَا الْعِلْمُ وَلَا يَکُونَ فِيکُمْ مَنْ يَعْلَمُهُ قَالَ فَنَظَرُوا لَهُ عَلَی مَا وَصَفَ فَأَمَرُوهُ أَنْ يَحْضُرَ ذَلِکَ الْکَاهِنَ وَأَنْ يَخْتَلِفَ إِلَيْهِ فَجَعَلَ يَخْتَلِفُ إِلَيْهِ وَکَانَ عَلَی طَرِيقِ الْغُلَامِ رَاهِبٌ فِي صَوْمَعَةٍ قَالَ مَعْمَرٌ أَحْسِبُ أَنَّ أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ کَانُوا يَوْمَئِذٍ مُسْلِمِينَ قَالَ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَسْأَلُ ذَلِکَ الرَّاهِبَ کُلَّمَا مَرَّ بِهِ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّی أَخْبَرَهُ فَقَالَ إِنَّمَا أَعْبُدُ اللَّهَ قَالَ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَمْکُثُ عِنْدَ الرَّاهِبِ وَيُبْطِئُ عَنْ الْکَاهِنِ فَأَرْسَلَ الْکَاهِنُ إِلَی أَهْلِ الْغُلَامِ إِنَّهُ لَا يَکَادُ يَحْضُرُنِي فَأَخْبَرَ الْغُلَامُ الرَّاهِبَ بِذَلِکَ فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ إِذَا قَالَ لَکَ الْکَاهِنُ أَيْنَ کُنْتَ فَقُلْ عِنْدَ أَهْلِي وَإِذَا قَالَ لَکَ أَهْلُکَ أَيْنَ کُنْتَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّکَ کُنْتَ عِنْدَ الْکَاهِنِ قَالَ فَبَيْنَمَا الْغُلَامُ عَلَی ذَلِکَ إِذْ مَرَّ بِجَمَاعَةٍ مِنْ النَّاسِ کَثِيرٍ قَدْ حَبَسَتْهُمْ دَابَّةٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ تِلْکَ الدَّابَّةَ کَانَتْ أَسَدًا قَالَ فَأَخَذَ الْغُلَامُ حَجَرًا فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنْ کَانَ مَا يَقُولُ الرَّاهِبُ حَقًّا فَأَسْأَلُکَ أَنْ أَقْتُلَهَا قَالَ ثُمَّ رَمَی فَقَتَلَ الدَّابَّةَ فَقَالَ النَّاسُ مَنْ قَتَلَهَا قَالُوا الْغُلَامُ فَفَزِعَ النَّاسُ وَقَالُوا لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلَامُ عِلْمًا لَمْ يَعْلَمْهُ أَحَدٌ قَالَ فَسَمِعَ بِهِ أَعْمَی فَقَالَ لَهُ إِنْ أَنْتَ رَدَدْتَ بَصَرِي فَلَکَ کَذَا وَکَذَا قَالَ لَهُ لَا أُرِيدُ مِنْکَ هَذَا وَلَکِنْ أَرَأَيْتَ إِنْ رَجَعَ إِلَيْکَ بَصَرُکَ أَتُؤْمِنُ بِالَّذِي رَدَّهُ عَلَيْکَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَدَعَا اللَّهَ فَرَدَّ عَلَيْهِ بَصَرَهُ فَآمَنَ الْأَعْمَی فَبَلَغَ الْمَلِکَ أَمْرُهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَالَ لَأَقْتُلَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْکُمْ قِتْلَةً لَا أَقْتُلُ بِهَا صَاحِبَهُ فَأَمَرَ بِالرَّاهِبِ وَالرَّجُلِ الَّذِي کَانَ أَعْمَی فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ عَلَی مَفْرِقِ أَحَدِهِمَا فَقَتَلَهُ وَقَتَلَ الْآخَرَ بِقِتْلَةٍ أُخْرَی ثُمَّ أَمَرَ بِالْغُلَامِ فَقَالَ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی جَبَلِ کَذَا وَکَذَا فَأَلْقُوهُ مِنْ رَأْسِهِ فَانْطَلَقُوا بِهِ إِلَی ذَلِکَ الْجَبَلِ فَلَمَّا انْتَهَوْا بِهِ إِلَی ذَلِکَ الْمَکَانِ الَّذِي أَرَادُوا أَنْ يُلْقُوهُ مِنْهُ جَعَلُوا يَتَهَافَتُونَ مِنْ ذَلِکَ الْجَبَلِ وَيَتَرَدَّوْنَ حَتَّی لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا الْغُلَامُ قَالَ ثُمَّ رَجَعَ فَأَمَرَ بِهِ الْمَلِکُ أَنْ يَنْطَلِقُوا بِهِ إِلَی الْبَحْرِ فَيُلْقُونَهُ فِيهِ فَانْطُلِقَ بِهِ إِلَی الْبَحْرِ فَغَرَّقَ اللَّهُ الَّذِينَ کَانُوا مَعَهُ وَأَنْجَاهُ فَقَالَ الْغُلَامُ لِلْمَلِکِ إِنَّکَ لَا تَقْتُلُنِي حَتَّی تَصْلُبَنِي وَتَرْمِيَنِي وَتَقُولَ إِذَا رَمَيْتَنِي بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلَامِ قَالَ فَأَمَرَ بِهِ فَصُلِبَ ثُمَّ رَمَاهُ فَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلَامِ قَالَ فَوَضَعَ الْغُلَامُ يَدَهُ عَلَی صُدْغِهِ حِينَ رُمِيَ ثُمَّ مَاتَ فَقَالَ أُنَاسٌ لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلَامُ عِلْمًا مَا عَلِمَهُ أَحَدٌ فَإِنَّا نُؤْمِنُ بِرَبِّ هَذَا الْغُلَامِ قَالَ فَقِيلَ لِلْمَلِکِ أَجَزِعْتَ أَنْ خَالَفَکَ ثَلَاثَةٌ فَهَذَا الْعَالَمُ کُلُّهُمْ قَدْ خَالَفُوکَ قَالَ فَخَدَّ أُخْدُودًا ثُمَّ أَلْقَی فِيهَا الْحَطَبَ وَالنَّارَ ثُمَّ جَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ مَنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ تَرَکْنَاهُ وَمَنْ لَمْ يَرْجِعْ أَلْقَيْنَاهُ فِي هَذِهِ النَّارِ فَجَعَلَ يُلْقِيهِمْ فِي تِلْکَ الْأُخْدُودِ قَالَ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فِيهِ قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ حَتَّی بَلَغَ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ قَالَ فَأَمَّا الْغُلَامُ فَإِنَّهُ دُفِنَ فَيُذْکَرُ أَنَّهُ أُخْرِجَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَأُصْبُعُهُ عَلَی صُدْغِهِ کَمَا وَضَعَهَا حِينَ قُتِلَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
محمود بن غیلان وعبدابن حمید، عبدالرزاق، معمر، ثابت بنانی، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت صہیب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کی نماز سے فراغت کے بعد آہستہ آہستہ کچھ پڑھا کرتے تھے۔ (ہمس کے معنی بعض کے نزدیک اسطرح ہونٹ ہلانا ہے کہ ایسا معلوم ہو کہ کوئی بات کر رہے ہیں۔) ۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کی نماز پڑھ کر ہونٹوں کو حرکت دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک نبی کو امت کی کثرت کا عجب ہوا تو انہوں نے دل ہی دل میں کہا کہ ان کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس پر اللہ تعالی نے وحی بھیجی کہ انہیں اختیار دیدیں کہ یا تو خود پر کسی دشمن کا مسلط ہونا اختیار کرلیں یا پھر ہلاکت۔ انہوں نے ہلاکت اختیار کی اور ان میں سے ایک ہی دن میں ستر ہزار آدمی مر گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب یہ حدیث بیان کرتے تو یہ بھی بیان کیا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا جس کا ایک کاہن تھا وہ اسے غیب کی خبریں بتایا کرتا تھا۔ اس کاہن نے کہا کہ میرے لیے ایک سمجھدار لڑکا تلاش کرو یا کہا کہ ذہین و فطین لڑکا تلاش کرو جسے میں اپنا یہ علم سکھا سکوں تاکہ ایسا نہ ہو کہ اگر میں مر جاؤں تو تم لوگوں میں سے یہ علم اٹھ جائے اور اس کا جاننے والا کوئی نہ رہے۔ لوگوں نے اس کے بتائے ہوئے اوصاف کے مطابق لڑکا تلاش کیا اور اسے کہا کہ روزانہ اس کاہن کے پاس حاضر ہوا کرو اور اس کے پاس آتے جاتے رہا کرو۔ اس نے آنا جانا شروع کر دیا۔ اس کے راستے میں ایک عبادت خانہ تھا جس میں ایک راہب ہوتا تھا۔ معمر کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ان دنوں عبادت خانوں کے لوگ مسلمان ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ وہ لڑکا جب بھی وہان سے گزرتا تو اس راہب سے دین کے بارے میں کچھ باتیں سیکھتا یہاں تک کہ اس راہب نے اسے بتایا کہ میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ اس پر اس لڑکے نے راہب کے پاس زیادہ ٹھہرنا شروع کر دیا اور کاہن کے پاس کم کاہن نے اس کے گھر والوں کو پیغام بھیجا کہ اب وہ کم حاضر ہوتا ہے۔ لڑکے نے راہب کو یہ بات بتائی تو اس نے کہا کہ ایسا کرو کہ اگر تمہارے گھر والے پوچھیں کہ کہاں تھے۔ تو تم کہو کہ کاہن کے پاس اگر کاہن پوچھے تو کہو کہ گھر تھا۔ وہ اسی طرح کرتا رہا کہ ایک دن اس کا ایک ایسی جماعت پر گزر ہوا جنہیں کسی جانور نے روک رکھا تھا۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ جانور شیر تھا۔ اس لڑکے نے ایک پتھر اٹھایا کہا کہ یا اللہ اگر راہب کی بات سچ ہے تو میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میں اسے قتل کر سکوں۔ پھر اس نے پتھر مارا جس سے وہ جانور مر گیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اسے کس نے قتل کیا کہنے لگے کہ اس لڑکے نے۔ لوگ حیران ہوگئے اور کہنے لگا کہ اس نے ایسا علم سیکھ لیا ہے جو کسی نے نہیں سیکھا۔ یہ بات ایک اندھے نے سنی تو اسے کہنے لگا کہ اگر تم میری بینائی لوٹا دو تو میں تمہیں اتنا، اتنا مال دوں گا۔ لڑکا کہنے لگا کہ میں تم سے اسکے علاوہ کچھ نہیں چاہتا کہ اگر تمہاری آنکھیں تمہیں مل جائیں تو تم اس پر ایمان لے آؤ جس نے تمہاری بینائی لوٹائی ہو۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ پس لڑکے نے دعا کی اور اسکی آنکھوں کی بینائی آگئی۔ اور وہ اس پر ایمان لے آیا۔ جب یہ خبر بادشاہ تک پہنچی تو اس نے سب کو بلوایا اور کہنے لگا کہ میں تم سب کو مختلف طریقوں سے قتل کر دوں گا۔ چنانچہ اس نے راہب اور اس سابق نابینا شخص میں سے ایک کو آرے سے چروا (قتل کر) دیا اور دوسرے کو کسی اور طریقے سے قتل کروا دیا۔ پھر لڑکے کے متعلق حکم دیا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر گرا دو۔ وہ لوگ اسے پہاڑ پر لے گئے اور جب اس جگہ پہنچے جہاں سے اسے گرانا چاہتے تھے تو خود گرنے لگے یہاں تک کہ لڑکے کے علاوہ سب مر گئے۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس واپس گیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔ وہ لوگ اسے لے کر سمندر کی طرف چل پڑے۔ لیکن اللہ تعالی نے ان سب کو غرق کر دیا اور اس لڑکے کو بچا لیا۔ پھر وہ لڑکا بادشاہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تم مجھے اس وقت تک قتل نہیں کر سکتے جب تک مجھے باندھ کر تیر نہ چلاؤ اور تیر چلاتے وقت یہ نہ پڑھو بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلَامِ (اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے۔) چنانچہ بادشاہ نے اسے باندھنے کا حکم دیا اور تیر چلاتے وقت اسی طرح کیا جس طرح لڑکے نے بتایا تھا۔ جب تیر مارا گیا تو اس نے اپنی کنپٹی پر ہاتھ رکھا اور مر گیا لوگ کہنے لگے کہ اس لڑکے نے ایسا علم حاصل کیا جو کسی کے پاس نہیں تھا۔ لہذا ہم سب بھی اسی کے معبود پر ایمان لاتے ہیں۔ تم تو تین آدمیوں کی مخالفت سے گبھرا رہے تھے لو یہ سارا عالم تمہارا مخالف ہوگیا ہے۔ اس پر بادشاہ نے خندق گھدوائی اور اس میں لکڑیاں جمع کر کے آگ لگوا دی۔ پھر لوگوں کو جمع کیا اور کہنے لگا کہ جو اپنے نئے دین کو چھوڑ دے گا۔ ہم بھی اسے چھوڑ دیں گے اور جو اس پر قائم رہے گا ہم اسے آگ میں پھینک دیں گے اس طرح وہ انہیں اس خندق میں ڈالنے لگا۔ (اس کے بارے میں) اللہ تعالی نے فرمایا (قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ Ć۝ۙ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ Ĉ۝ۙ اِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُوْدٌ Č۝ۙ وَّهُمْ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُهُوْدٌ Ċ۝ۭ وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ Ď۝ۙ ) 84۔ البروج:4 تا 8) (خندقوں والے ہلاک ہوئے جس میں آگ تھی بہت ایندھن والی، جبکہ وہ ان کے کناروں پر بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ایمانداروں سے جو کچھ کہہ رہے تھے اس کو دیکھ رہے تھے اور ان سے اسی کا تو بدلہ لے رہے تھے کہ وہ اللہ زبردست خوبیوں والے پر ایمان لائے تھے۔) راوی کہتے ہیں کہ لڑکا تو دفن کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی نعش حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں نکلی تھی اور اس کی انگلی اس وقت بھی اسی طرح اس کی کنپٹی پر رکھی ہوئی تھی جس طرح اس نے قتل ہوتے وقت رکھی تھی۔

No comments:

Post a Comment