سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جمعرات کا دن ، کیا ہے جمعرات کا دن ؟ پھر روئے یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں تر ہو گئیں ۔ میں نے کہا کہ اے ابن عباس ! جمعرات کے دن سے کیا غرض ہے ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی شدت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس ( دوات اور تختی ) لاؤ کہ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جاؤ ۔ ( یہ سن کر ) لوگ ( کاغذ قلم کے متعلق ) جھگڑنے لگے اور پیغمبر کے پاس جھگڑا نہیں چاہئے تھا ۔ کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لغو صادر ہو سکتا ہے ؟ پھر سمجھ لو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھی طرح سے سمجھ لو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ کہ میں جس کام میں مصروف ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس میں تم مشغول ہو ( جھگڑے اور اختلاف میں ) میں تم کو تین باتوں کی وصیت کرتا ہوں ایک تو یہ کہ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا ۔ دوسری جو سفارتیں آئیں ان کی خاطر اسی طرح کرنا جیسے میں کیا کرتا تھا ۔ ( تاکہ اور قومیں خوش ہوں اور ان کو اسلام کی طرف رغبت ہو ) اور تیسری بات سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نہیں کہی یا سعید نے کہا کہ میں بھول گیا ۔
No comments:
Post a Comment