Friday, 17 February 2017

Sahih Bukhari Hadees No 5088

حدثنا أبو اليمان ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا شعيب ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الزهري ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرني عروة بن الزبير ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن أبا حذيفة بن عتبة بن ربيعة بن عبد شمس ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ممن شهد بدرا مع النبي صلى الله عليه وسلم تبنى سالما ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأنكحه بنت أخيه هند بنت الوليد بن عتبة بن ربيعة وهو مولى لامرأة من الأنصار ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كما تبنى النبي صلى الله عليه وسلم زيدا ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان من تبنى رجلا في الجاهلية دعاه الناس إليه وورث من ميراثه حتى أنزل الله ‏ {‏ ادعوهم لآبائهم‏}‏ إلى قوله ‏ {‏ ومواليكم‏}‏ فردوا إلى آبائهم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمن لم يعلم له أب كان مولى وأخا في الدين ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجاءت سهلة بنت سهيل بن عمرو القرشي ثم العامري ـ وهى امرأة أبي حذيفة ـ النبي صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إنا كنا نرى سالما ولدا وقد أنزل الله فيه ما قد علمت فذكر الحديث‏.‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے ، انہیں عروہ بن زبیرنے خبر دی اور انہیں عائشہ رضیاللہعنہا نے کہ
ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس ( مہشم ) نے جو ان صحابہ میں سے تھے جنہوںنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہبدر میں شرکت کی تھی ۔ سالمبنمعقل رضیاللہعنہ کو لےپالک بیٹا بنایا ، اور پھر ان کا نکاح اپنے بھائی کی لڑکی ہندہ بنت الولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کر دیا ۔ پہلے سالم رضیاللہعنہ ایک انصاری خاتون ( شبیعہ بنت یعار ) کے آزاد کردہ غلام تھے لیکن حذیفہ نے ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو ( جو آپ ہی کے آزاد کردہ غلام تھے ) اپنا لےپالک بیٹا بنایا تھا جاہلیت کے زمانے میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص کسی کو لےپالک بیٹا بنا لیتا تو لوگ اسے اسی کی طرف نسبت کر کے پکارا کرتے تھے اور لےپالک بیٹا اس کی میراث میں سے بھی حصہ پاتا آخر جب سورۃ الحجرات میں یہ آیت اتری کہ ” انہیں ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارو “ اللہ تعالیٰ کے فرمان ” وموالیکم “ تک تو لوگ انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارنے لگے جس کے باپ کا علم نہ ہوتا تو اسے ” مولی “ اور دینی بھائی کہا جاتا ۔ پھر سہلہ بنت سہیل بنعمرو القرشی ثم العامدی رضیاللہعنہا جو حضرت ابوحذیفہ رضیاللہعنہ کی بیوی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم تو سالم کو اپنا حقیقی جیسا بیٹا سمجھتے تھے اب اللہ نے جو حکم اتارا وہ آپ کو معلوم ہے پھر آخر تک حدیث بیان کی ۔

No comments:

Post a Comment