حدثنا يحيى ، حدثنا الليث ، عن عقيل ، عن ابن شهاب ، حدثني سعيد بن مروان ، حدثنا محمد بن عبد العزيز بن أبي رزمة ، أخبرنا أبو صالح ، سلمويه قال حدثني عبد الله ، عن يونس بن يزيد ، قال أخبرني ابن شهاب ، أن عروة بن الزبير ، أخبره أن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت كان أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم الرؤيا الصادقة في النوم ، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح ، ثم حبب إليه الخلاء فكان يلحق بغار حراء فيتحنث فيه ـ قال والتحنث التعبد ـ الليالي ذوات العدد قبل أن يرجع إلى أهله ، ويتزود لذلك ، ثم يرجع إلى خديجة فيتزود بمثلها ، حتى فجئه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك فقال اقرأ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " ما أنا بقارئ ". قال " فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني. فقال اقرأ. قلت ما أنا بقارئ. فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد ، ثم أرسلني. فقال اقرأ. قلت ما أنا بقارئ. فأخذني فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني. فقال { اقرأ باسم ربك الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربك الأكرم * الذي علم بالقلم} ". الآيات إلى قوله { علم الإنسان ما لم يعلم} فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم ترجف بوادره حتى دخل على خديجة فقال " زملوني زملوني ". فزملوه حتى ذهب عنه الروع قال لخديجة " أى خديجة ما لي ، لقد خشيت على نفسي ". فأخبرها الخبر. قالت خديجة كلا أبشر ، فوالله لا يخزيك الله أبدا ، فوالله إنك لتصل الرحم ، وتصدق الحديث ، وتحمل الكل ، وتكسب المعدوم ، وتقري الضيف ، وتعين على نوائب الحق. فانطلقت به خديجة حتى أتت به ورقة بن نوفل وهو ابن عم خديجة أخي أبيها ، وكان امرأ تنصر في الجاهلية ، وكان يكتب الكتاب العربي ويكتب من الإنجيل بالعربية ما شاء الله أن يكتب ، وكان شيخا كبيرا قد عمي فقالت خديجة يا ابن عم اسمع من ابن أخيك. قال ورقة يا ابن أخي ماذا ترى فأخبره النبي صلى الله عليه وسلم خبر ما رأى. فقال ورقة هذا الناموس الذي أنزل على موسى ، ليتني فيها جذعا ، ليتني أكون حيا. ذكر حرفا. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " أومخرجي هم ". قال ورقة نعم لم يأت رجل بما جئت به إلا أوذي ، وإن يدركني يومك حيا أنصرك نصرا مؤزرا. ثم لم ينشب ورقة أن توفي ، وفتر الوحى ، فترة حتى حزن رسول الله صلى الله عليه وسلم.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیثبنسعد نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے ، ان سے ابنشہاب نے ( دوسری سند ) حضرت امامبخاری نے کہا اور مجھ سے سعید بنمروان نے بیان کیا اور ان سے محمد بن عبدالعزیز بن ابی رزمہ نے ، انہیں ابوصالح سلمویہ نے خبر دی ، کہا کہ مجھ سے عبداللہ نے بیان کیا ، ان سے یونس بنیزید نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے ابنشہاب نے خبر دی
انہیں عروہبنزبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی عائشہ رضیاللہعنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے پہلے سچے خواب دکھائے جاتے تھے چنانچہ اس دور میں آپ جو خواب بھی دیکھ لیتے وہ صبح کی روشنی کی طرح بیداری میں نمودار ہوتا ۔ پھر آپ کو تنہائی بھلی لگنے لگی ۔ اس دور میں آپ غار حرا تنہا تشریف لے جاتے اور آپ وہاں ” تحنث “ کیا کرتے تھے ۔ عروہ نے کہا کہ ” تحنث “ سے عبادت مراد ہے ۔ آپ وہاں کئی کئی راتیں جاگتے ، گھر میں نہ آتے اور اس کے لئے اپنے گھر سے توشہ لے جایا کرتے تھے ۔ پھر جب توشہ ختم ہو جاتا پھر خدیجہ رضیاللہعنہا کے یہاں لوٹ کر تشریف لاتے اور اتنا ہی توشہ پھر لے جاتے ۔ اسی حال میں آپ غار حرا میں تھے کہ دفعتاً آپ پر وحی نازل ہوئی چنانچہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا پڑھئے ! آنحضرت نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ آنحضور نے بیان کیا کہ مجھے فرشتہ نے پکڑ لیا اور اتنا بھینچا کہ میں بے طاقت ہو گیا پھر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھئے ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ انہوں نے پھر دوسری مرتبہ مجھے پکڑ کر اس طرح بھینچا کہ میں بے طاقت ہو گیا اور چھوڑنے کے بعد کہا کہ پڑھئے ! میں نے اس مرتبہ بھی یہی کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ انہوں نے تیسری مرتبہ پھر اسی طرح مجھے پکڑ کر بھینچا کہ میں بے طاقت ہو گیا اور کہا کہ پڑھئے ! پڑھئے ! اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے سب کو پیدا کیا ، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے ، آپ پڑھئے اور آپ کا رب کریم ہے ، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے ، سے آیت علم الانسان مالم یعلم تک پھر آنحضرت ان پانچ آیات کو لے کر واپس گھر تشریف لائے اور گھبراہٹ سے آپ کے مونڈھے اور گردن کا گوشت پھڑک ( حرکت کر ) رہا تھا ۔ آپ نے خدیجہ رضیاللہعنہا کے پاس پہنچ کر فرمایا کہ مجھے چادر اڑھا دو ! مجھے چادراڑھادو ! چنانچہ انہوں نے آپ کو چادر اڑھا دی ۔ جب گھبراہٹ آپ سے دور ہوئی تو آپ نے خدیجہ رضیاللہعنہا سے کہا اب کیا ہو گا مجھے تو اپنی جان کا ڈر ہو گیا ہے پھر آپ نے سارا واقعہ انہیں سنایا ۔ خدیجہ رضیاللہعنہا نے کہا ایسا ہرگز نہ ہو گا ، آپ کو خوشخبری ہو ، اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ۔ اللہ کی قسم ! آپ تو صلہرحمی کرنے والے ہیں ، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں ، آپ کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھالیتے ہیں ، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پالیتے ہیں ۔ آپ مہمان نوازہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں پھر خدیجہ رضیاللہعنہا آنحضرت کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں وہ خدیجہ رضیاللہعنہا کے چچا اور آپ کے والد کے بھائی تھے وہ زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے جس طرح اللہ نے چاہا انہوں نے انجیل بھی عربی میں لکھی تھی ۔ وہ بہت بوڑھے تھے اور نابینا ہو گئے تھے ۔ خدیجہ رضیاللہعنہا نے ان سے کہا چچا اپنے بھتیجے کا حال سنئے ۔ ورقہ نے کہا بیٹے ! تم نے کیا دیکھا ہے ؟ آپ نے ساراحال سنایا جو کچھ آپ نے دیکھا تھا ۔ اس پر ورقہ نے کہا یہی وہ ناموس ( حضرت جبرائیل علیہالسلام ) ہیں جو حضرت موسیٰ کے پاس آتے تھے ۔ کاش میں تمہاری نبوت کے زمانہ میں جوان اور طاقت ور ہوتا ۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہ جاتا ، پھر ورقہ نے کچھ اور کہا کہ جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکالے گی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا واقعی یہ لوگ مجھے مکہ سے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں ، جو دعوت آپ لے کر آئے ہیں اسے جو بھی لے کر آیا تو اس سے عداوت ضرور کی گئی ۔ اگر میں آپ کی نبوت کے زمانہ میں زندہ رہ گیا تو میں ضرور بھرپور طریقہ پر آپ کا ساتھ دوں گا ۔ اس کے بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور کچھ دنوں کے لئے وحی کا آنا بھی بند ہو گیا ۔ آپ وحی کے بند ہو جانے کی وجہ سے غمگین رہنے لگے ۔
No comments:
Post a Comment