قال ابن شهاب وأخبرني عبد الرحمن بن مالك المدلجي ـ وهو ابن أخي سراقة بن مالك بن جعشم ـ أن أباه ، أخبره أنه ، سمع سراقة بن جعشم ، يقول جاءنا رسل كفار قريش يجعلون في رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر دية كل واحد منهما ، من قتله أو أسره ، فبينما أنا جالس في مجلس من مجالس قومي بني مدلج أقبل رجل منهم حتى قام علينا ونحن جلوس ، فقال يا سراقة ، إني قد رأيت آنفا أسودة بالساحل ـ أراها محمدا وأصحابه. قال سراقة فعرفت أنهم هم ، فقلت له إنهم ليسوا بهم ، ولكنك رأيت فلانا وفلانا انطلقوا بأعيننا. ثم لبثت في المجلس ساعة ، ثم قمت فدخلت فأمرت جاريتي أن تخرج بفرسي وهى من وراء أكمة فتحبسها على ، وأخذت رمحي ، فخرجت به من ظهر البيت ، فحططت بزجه الأرض ، وخفضت عاليه حتى أتيت فرسي فركبتها ، فرفعتها تقرب بي حتى دنوت منهم ، فعثرت بي فرسي ، فخررت عنها فقمت ، فأهويت يدي إلى كنانتي فاستخرجت منها الأزلام ، فاستقسمت بها أضرهم أم لا فخرج الذي أكره ، فركبت فرسي ، وعصيت الأزلام ، تقرب بي حتى إذا سمعت قراءة رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو لا يلتفت ، وأبو بكر يكثر الالتفات ساخت يدا فرسي في الأرض حتى بلغتا الركبتين ، فخررت عنها ثم زجرتها فنهضت ، فلم تكد تخرج يديها ، فلما استوت قائمة ، إذا لأثر يديها عثان ساطع في السماء مثل الدخان ، فاستقسمت بالأزلام ، فخرج الذي أكره ، فناديتهم بالأمان فوقفوا ، فركبت فرسي حتى جئتهم ، ووقع في نفسي حين لقيت ما لقيت من الحبس عنهم أن سيظهر أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت له إن قومك قد جعلوا فيك الدية. وأخبرتهم أخبار ما يريد الناس بهم ، وعرضت عليهم الزاد والمتاع ، فلم يرزآني ولم يسألاني إلا أن قال أخف عنا. فسألته أن يكتب لي كتاب أمن ، فأمر عامر بن فهيرة ، فكتب في رقعة من أديم ، ثم مضى رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابن شهاب فأخبرني عروة بن الزبير أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لقي الزبير في ركب من المسلمين كانوا تجارا قافلين من الشأم ، فكسا الزبير رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبا بكر ثياب بياض ، وسمع المسلمون بالمدينة مخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من مكة ، فكانوا يغدون كل غداة إلى الحرة فينتظرونه ، حتى يردهم حر الظهيرة ، فانقلبوا يوما بعد ما أطالوا انتظارهم ، فلما أووا إلى بيوتهم ، أوفى رجل من يهود على أطم من آطامهم لأمر ينظر إليه ، فبصر برسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه مبيضين يزول بهم السراب ، فلم يملك اليهودي أن قال بأعلى صوته يا معاشر العرب هذا جدكم الذي تنتظرون. فثار المسلمون إلى السلاح ، فتلقوا رسول الله صلى الله عليه وسلم بظهر الحرة ، فعدل بهم ذات اليمين حتى نزل بهم في بني عمرو بن عوف ، وذلك يوم الاثنين من شهر ربيع الأول ، فقام أبو بكر للناس ، وجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم صامتا ، فطفق من جاء من الأنصار ممن لم ير رسول الله صلى الله عليه وسلم يحيي أبا بكر ، حتى أصابت الشمس رسول الله صلى الله عليه وسلم فأقبل أبو بكر حتى ظلل عليه بردائه ، فعرف الناس رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك ، فلبث رسول الله صلى الله عليه وسلم في بني عمرو بن عوف بضع عشرة ليلة وأسس المسجد الذي أسس على التقوى ، وصلى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ثم ركب راحلته فسار يمشي معه الناس حتى بركت عند مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم بالمدينة ، وهو يصلي فيه يومئذ رجال من المسلمين ، وكان مربدا للتمر لسهيل وسهل غلامين يتيمين في حجر أسعد بن زرارة ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بركت به راحلته " هذا إن شاء الله المنزل ". ثم دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم الغلامين ، فساومهما بالمربد ليتخذه مسجدا ، فقالا لا بل نهبه لك يا رسول الله ، ثم بناه مسجدا ، وطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم ينقل معهم اللبن في بنيانه ، ويقول وهو ينقل اللبن " هذا الحمال لا حمال خيبر هذا أبر ربنا وأطهر ". ويقول " اللهم إن الأجر أجر الآخره فارحم الأنصار والمهاجره ". فتمثل بشعر رجل من المسلمين لم يسم لي. قال ابن شهاب ولم يبلغنا في الأحاديث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم تمثل ببيت شعر تام غير هذا البيت.
ابنشہاب نے بیان کیا اور مجھے عبدالرحمٰن بنمالک مدلجی نے خبر دی ، وہ سراقہ بنمالک بن جعشم کے بھتیجے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں خبر دی اور انہوں نے سراقہ بن جعشم رضیاللہعنہ کو یہ کہتے سنا کہ
ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آئے اور یہ پیشکش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ کو اگر کوئی شخص قتل کر دے یا قید کر لائے تو اسے ہر ایک کے بدلے میں ایک سو اونٹ دیئے جائیں گے ۔ میں اپنی قوم بنیمدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا ایک آدمی سامنے آیااور ہمارے قریب کھڑا ہو گیا ۔ ہم ابھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس نے کہا سراقہ ! ساحل پر میں ابھی چند سائے دیکھ کر آ رہا ہوں میرا خیال ہے کہ وہ محمد اور ان کے ساتھی ہی ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سراقہ رضیاللہعنہ نے کہا میں سمجھ گیا اس کا خیال صحیح ہے لیکن میں نے اس سے کہا کہ وہ لوگ نہیں ہیں میں نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے ہمارے سامنے سے اسی طرف گئے ہیں ۔ اس کے بعد میں مجلس میں تھوڑی دیر اور بیٹھا رہا اور پھر اٹھتے ہی گھر گیا اور لونڈی سے کہا کہ میرے گھوڑے کو لے کر ٹیلے کے پیچھے چلی جائے اور وہیں میرا انتظار کرے ، اس کے بعد میں نے اپنا نیزہ اٹھایا اور گھر کی پشت کی طرف سے باہر نکل آیا میں نیزے کی نوک سے زمین پر لکیر کھینچتا ہوا چلا گیا اور اوپر کے حصے کو چھپائے ہوئے تھا ۔ ( سراقہ یہ سب کچھ اس لئے کر رہا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو ورنہ وہ بھی میرے انعام میں شریک ہو جائے گا ) میں گھوڑے کے پاس آ کر اس پر سوار ہوا اور صبا رفتاری کے ساتھ اسے لے چلا ، جتنی جلدی کے ساتھ بھی میرے لئے ممکن تھا ، آخر میں نے ان کو پا ہی لیا ۔ اسی وقت گھوڑے نے ٹھو کر کھائی اور مجھے زمین پر گرا دیا ۔ لیکن میں کھڑاہو گیا اور اپنا ہاتھ ترکش کی طرف بڑھایا اس میں سے تیر نکال کر میں نے فال نکالی کہ آیا میں انہیں نقصان پہنچا سکتا ہوں یا نہیں ۔ فال ( اب بھی ) وہ نکلی جسے میں پسند نہیں کرتا تھا ۔ لیکن میں دوبارہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور تیروں کے فال کی پرواہ نہیں کی ۔ پھر میرا گھوڑا مجھے تیزی کے ساتھ دوڑائے لئے جا رہا تھا ۔ آخر جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرا ، ت سنی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف کوئی توجہ نہیں کر رہے تھے لیکن حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ باربار مڑ کر دیکھتے تھے ، تو میرے گھوڑے کے آگے کے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے جب وہ ٹخنوں تک دھنس گیا تو میں اس کے اوپر گر پڑا اور اسے اٹھنے کے لئے ڈانٹا میں نے اسے اٹھا نے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے پاؤں زمین سے نہیں نکال سکا ۔ بڑی مشکل سے جب اس نے پوری طرح کھڑے ہونے کی کوشش کی تو اس کے آگے کے پاؤں سے منتشر سا غبار اٹھ کر دھوئیں کی طرح آسمان کی طرف چڑھنے لگا ۔ میں نے تیروں سے فال نکالی لیکن اس مرتبہ بھی وہی فال آئی جسے میں پسند نہیں کرتا تھا ۔ اس وقت میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امان کے لئے پکارا ۔ میری آواز پر وہ لوگ کھڑے ہو گئے اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا ۔ ان تک برے ارادے کے ساتھ پہنچنے سے جس طرح مجھے روک دیا گیا تھا ، اسی سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت غالب آ کر رہے گی ۔ اس لئے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کے مارنے کے لئے سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کیا ہے ۔ پھر میں نے آپ کو قریش کے ارادوں کی اطلاع دی ۔ میں نے ان حضرات کی خدمت میں کچھ توشہ اور سامان پیش کیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا مجھ سے کسی اور چیز کا بھی مطالبہ نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ ہمارے متعلق راز داری سے کام لینا لیکن میں نے عرض کیا کہ آپ میرے لئے ایک امن کی تحریر لکھ دیجئیے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہیرہ رضیاللہعنہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک رقعہ پر تحریر امن لکھ دی ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے ۔ ابنشہاب نے بیان کیا اور انہیں عروہبنزبیر نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زبیر رضیاللہعنہ سے ہوئی جو مسلمانوں کے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے واپس آ رہے تھے ۔ زبیر رضیاللہعنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضیاللہعنہ کی خدمت میں سفید پوشاک پیش کی ۔ ادھر مدینہ میں بھی مسلمانوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت کی اطلاع ہو چکی تھی اور یہ لوگ روزانہ صبح کو مقام حرہ تک آتے اور انتظار کرتے رہتے لیکن دوپہر کی گرمی کی وجہ سے ( دوپہر کو ) انہیں واپس جانا پڑتا تھا ایک دن جب بہت طویل انتظار کے بعد سب لوگ آ گئے اور اپنے گھر پہنچ گئے تو ایک یہودی اپنے ایک محل پر کچھ دیکھنے چڑھا ۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھا سفید سفید چلے آ رہے ہیں ۔ ( یا تیزی سے جلدی جلدی آ رہے ہیں ) جتنا آپ نزدیک ہو رہے تھے اتنی ہی دور سے پانی کی طرح ریتی کا چمکنا کم ہوتا جاتا ۔ یہودی بے اختیار چلا اٹھا کہ اے عرب کے لوگو ! تمہارے یہ بزرگ سردار آ گئے جن کا تمہیں انتظار تھا ۔ مسلمان ہتھیار لے کر دوڑ پڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام حرہ پر استقبال کیا ۔ آپ نے ان کے ساتھ داہنی طرف کا راستہ اختیار کیا اور بنی عمروبنعوف کے محلہ میں قیام کیا ۔ یہ ربیع الاول کا مہینہ اور پیر کا دن تھا ۔ ابوبکر رضیاللہعنہ لوگوں سے ملنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے رہے ۔ انصار کے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا ، وہ ابوبکر رضیاللہعنہ ہی کو سلام کر رہے تھے ۔ لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ پڑنے لگی تو حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ نے اپنی چادر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیا ۔ اس وقت سب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عمروبنعوف میں تقریباً دس راتوں تک قیام کیا اور وہ مسجد ( قباء ) جس کی بنیاد تقویٰ پر قائم ہے وہ اسی دوران میں تعمیر ہوئی اور آپ نے اس میں نماز پڑھی پھر ( جمعہ کے دن ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ پیدل روانہ ہوئے ۔ آخر آپ کی سواری مدینہ منورہ میں اس مقام پر آ کر بیٹھ گئی جہاں اب مسجدنبوی ہے ۔ اس مقام پر چند مسلمان ان دنوں نماز ادا کیا کرتے تھے ۔ یہ جگہ سہیل اور سہل ( رضیاللہعنہما ) دو یتیم بچوں کی تھی اور کھجور کا یہاں کھلیان لگتا تھا ۔ یہ دونوں بچے حضرت اسعد بن زرارہ رضیاللہعنہ کی پرورش میں تھے جب آپ کی اونٹنی وہاں بیٹھ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان شاء اللہ یہی ہمارے قیام کی جگہ ہو گی ۔ اس کے بعد آپ نے دونوں یتیم بچوں کو بلایا اور ان سے اس جگہ کا معاملہ کرنا چاہا تاکہ وہاں مسجد تعمیر کی جا سکے ۔ دونوں بچوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم یہ جگہ آپ کو مفت دے دیں گے ، لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مفت طور پر قبول کرنے سے انکار کیا ۔ زمین کی قیمت ادا کر کے لے لی اور وہیں مسجد تعمیر کی ۔ اس کی تعمیر کے وقت خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہرضیاللہعنہم کے ساتھ اینٹوں کے ڈھونے میں شریک تھے ۔ اینٹ ڈھوتے وقت آپ فرماتے جاتے تھے کہ ” یہ بوجھ خیبر کے بوجھ نہیں ہیں بلکہ اس کا اجر و ثواب اللہ کے یہاں باقی رہنے والا ہے اس میں بہت طہارت اور پاکی ہے “ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرما تے تھے کہ ” اے اللہ ! اجر تو بس آخرت ہی کا ہے پس ، تو انصار اور مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما “ اس طرح آپ نے ایک مسلمان شاعر کا شعر پڑھا جن کا نام مجھے معلوم نہیں ، ابنشہاب نے بیان کیا کہ احادیث سے ہمیں یہ اب تک معلوم نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعر کے سوا کسی بھی شاعر کے پورے شعر کو کسی موقعہ پر پڑھا ہو ۔
No comments:
Post a Comment