حدثنا يحيى بن بكير ، حدثنا الليث ، عن عقيل ، قال ابن شهاب فأخبرني عروة بن الزبير ، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت لم أعقل أبوى قط إلا وهما يدينان الدين ، ولم يمر علينا يوم إلا يأتينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم طرفى النهار بكرة وعشية ، فلما ابتلي المسلمون خرج أبو بكر مهاجرا نحو أرض الحبشة ، حتى بلغ برك الغماد لقيه ابن الدغنة وهو سيد القارة. فقال أين تريد يا أبا بكر فقال أبو بكر أخرجني قومي ، فأريد أن أسيح في الأرض وأعبد ربي. قال ابن الدغنة فإن مثلك يا أبا بكر لا يخرج ولا يخرج ، إنك تكسب المعدوم ، وتصل الرحم وتحمل الكل ، وتقري الضيف ، وتعين على نوائب الحق ، فأنا لك جار ، ارجع واعبد ربك ببلدك. فرجع وارتحل معه ابن الدغنة ، فطاف ابن الدغنة عشية في أشراف قريش ، فقال لهم إن أبا بكر لا يخرج مثله ولا يخرج ، أتخرجون رجلا يكسب المعدوم ، ويصل الرحم ، ويحمل الكل ، ويقري الضيف ، ويعين على نوائب الحق فلم تكذب قريش بجوار ابن الدغنة ، وقالوا لابن الدغنة مر أبا بكر فليعبد ربه في داره ، فليصل فيها وليقرأ ما شاء ، ولا يؤذينا بذلك ، ولا يستعلن به ، فإنا نخشى أن يفتن نساءنا وأبناءنا. فقال ذلك ابن الدغنة لأبي بكر ، فلبث أبو بكر بذلك يعبد ربه في داره ، ولا يستعلن بصلاته ، ولا يقرأ في غير داره ، ثم بدا لأبي بكر فابتنى مسجدا بفناء داره وكان يصلي فيه ويقرأ القرآن ، فينقذف عليه نساء المشركين وأبناؤهم ، وهم يعجبون منه ، وينظرون إليه ، وكان أبو بكر رجلا بكاء ، لا يملك عينيه إذا قرأ القرآن ، وأفزع ذلك أشراف قريش من المشركين ، فأرسلوا إلى ابن الدغنة ، فقدم عليهم. فقالوا إنا كنا أجرنا أبا بكر بجوارك ، على أن يعبد ربه في داره ، فقد جاوز ذلك ، فابتنى مسجدا بفناء داره ، فأعلن بالصلاة والقراءة فيه ، وإنا قد خشينا أن يفتن نساءنا وأبناءنا فانهه ، فإن أحب أن يقتصر على أن يعبد ربه في داره فعل ، وإن أبى إلا أن يعلن بذلك فسله أن يرد إليك ذمتك ، فإنا قد كرهنا أن نخفرك ، ولسنا مقرين لأبي بكر الاستعلان. قالت عائشة فأتى ابن الدغنة إلى أبي بكر فقال قد علمت الذي عاقدت لك عليه ، فإما أن تقتصر على ذلك ، وإما أن ترجع إلى ذمتي ، فإني لا أحب أن تسمع العرب أني أخفرت في رجل عقدت له. فقال أبو بكر فإني أرد إليك جوارك وأرضى بجوار الله عز وجل. والنبي صلى الله عليه وسلم يومئذ بمكة ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم للمسلمين " إني أريت دار هجرتكم ذات نخل بين لابتين ". وهما الحرتان ، فهاجر من هاجر قبل المدينة ، ورجع عامة من كان هاجر بأرض الحبشة إلى المدينة ، وتجهز أبو بكر قبل المدينة ، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم " على رسلك ، فإني أرجو أن يؤذن لي ". فقال أبو بكر وهل ترجو ذلك بأبي أنت قال " نعم ". فحبس أبو بكر نفسه على رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصحبه ، وعلف راحلتين كانتا عنده ورق السمر وهو الخبط أربعة أشهر. قال ابن شهاب قال عروة قالت عائشة فبينما نحن يوما جلوس في بيت أبي بكر في نحر الظهيرة قال قائل لأبي بكر هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم متقنعا ـ في ساعة لم يكن يأتينا فيها ـ فقال أبو بكر فداء له أبي وأمي ، والله ما جاء به في هذه الساعة إلا أمر. قالت فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذن ، فأذن له فدخل ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لأبي بكر " أخرج من عندك ". فقال أبو بكر إنما هم أهلك بأبي أنت يا رسول الله. قال " فإني قد أذن لي في الخروج ". فقال أبو بكر الصحابة بأبي أنت يا رسول الله. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " نعم ". قال أبو بكر فخذ بأبي أنت يا رسول الله إحدى راحلتى هاتين. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " بالثمن ". قالت عائشة فجهزناهما أحث الجهاز ، وصنعنا لهما سفرة في جراب ، فقطعت أسماء بنت أبي بكر قطعة من نطاقها فربطت به على فم الجراب ، فبذلك سميت ذات النطاق ـ قالت ـ ثم لحق رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر بغار في جبل ثور فكمنا فيه ثلاث ليال ، يبيت عندهما عبد الله بن أبي بكر وهو غلام شاب ثقف لقن ، فيدلج من عندهما بسحر ، فيصبح مع قريش بمكة كبائت ، فلا يسمع أمرا يكتادان به إلا وعاه ، حتى يأتيهما بخبر ذلك حين يختلط الظلام ، ويرعى عليهما عامر بن فهيرة مولى أبي بكر منحة من غنم ، فيريحها عليهما حين يذهب ساعة من العشاء ، فيبيتان في رسل وهو لبن منحتهما ورضيفهما ، حتى ينعق بها عامر بن فهيرة بغلس ، يفعل ذلك في كل ليلة من تلك الليالي الثلاث ، واستأجر رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر رجلا من بني الديل ، وهو من بني عبد بن عدي هاديا خريتا ـ والخريت الماهر بالهداية ـ قد غمس حلفا في آل العاص بن وائل السهمي ، وهو على دين كفار قريش فأمناه ، فدفعا إليه راحلتيهما ، وواعداه غار ثور بعد ثلاث ليال براحلتيهما صبح ثلاث ، وانطلق معهما عامر بن فهيرة والدليل فأخذ بهم طريق السواحل.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے کہ ابنشہاب نے بیان کیا ، انہیں عروہبنزبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضیاللہعنہا نے بیان کیا کہ
جب سے میں نے ہوش سنبھالا میں نے اپنے ماں باپ کو دین اسلام ہی پر پایا اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں ، پھر جب ( مکہ میں ) مسلمانوں کو ستایا جانے لگا تو حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ حبشہ کی ہجرت کا ارادہ کر کے نکلے ۔ جب آپ مقام برکغماد پر پہنچے تو آپ کی ملاقات ابن الدغنہ سے ہوئی جو قبیلہ قارہ کا سردار تھا ۔ اس نے پوچھا ابوبکر ( رضیاللہعنہ ) ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اب میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ ملک ملک کی سیاحت کروں ( اور آزادی کے ساتھ ) اپنے رب کی عبادت کروں ۔ ابن الدغنہ نے کہا لیکن ابوبکر ! تم جیسے انسان کو اپنے وطن سے نہ خود نکلنا چاہئے اور نہ اسے نکالا جانا چاہیے ۔ تم محتاجوں کی مدد کرتے ہو ، صلہرحمی کرتے ہو ۔ بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہو ، مہمان نوازی کرتے ہو اور حق پر قائم رہنے کی وجہ سے کسی پر آنے والی مصیبتوں میں اس کی مدد کرتے ہو ، میں تمہیں پناہ دیتا ہوں واپس چلو اور اپنے شہر ہی میں اپنے رب کی عبادت کرو ۔ چنانچہ وہ واپس آ گئے اور ابن الدغنہ بھی آپ کے ساتھ واپس آیا ۔ اس کے بعد ابن الدغنہ قریش کے تمام سرداروں کے یہاں شام کے وقت گیا اور سب سے اس نے کہا کہ ابوبکر ( رضیاللہعنہ ) جیسے شخص کو نہ خود نکلنا چاہیے اور نہ نکالا جانا چا ہیے کیا تم ایسے شخص کو نکال دو گے جو محتاجوں کی امداد کرتا ہے ، صلہرحمی کرتا ہے ، بے کسوں کا بوجھ اٹھا تا ہے ، مہمان نوازی کرتا ہے اور حق کی وجہ سے کسی پر آنے والی مصیبتوں میں اس کی مدد کرتا ہے ؟ قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ سے انکا ر نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ ابوبکر رضیاللہعنہ سے کہہ دو ، کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر کے اندر ہی کیا کریں ، وہیں نماز پڑھیں اور جو جی چاہے وہیں پڑھیں ، اپنی عبادات سے ہمیں تکلیف نہ پہنچا ئیں ، اس کا اظہار نہ کریں کیونکہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہماری عورتیں اور بچے اس فتنہ میں نہ مبتلا ہو جائیں ۔ یہ باتیں ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ سے بھی آ کر کہہ دیں کچھ دنوں تک تو آپ اس پر قائم رہے اور اپنے گھر کے اندر ہی اپنے رب کی عبادت کرتے رہے ، نہ نماز بر سر عام پڑھتے اور نہ گھر کے سوا کسی اورجگہ تلاوت قرآن کرتے تھے لیکن پھر انہوں نے کچھ سوچا اور اپنے گھر کے سامنے نماز پڑھنے کے لئے ایک جگہ بنائی جہاں آپ نے نماز پڑھنی شروع کی اور تلاوت قرآن بھی وہیں کرنے لگے ، نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں مشرکین کی عورتوں اور بچوں کا مجمع ہونے لگا ۔ وہ سب حیرت اور پسندیدگی کے ساتھ دیکھتے رہا کرتے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ بڑے نرمدل انسان تھے ۔ جب قرآنمجید کی تلاوت کرتے تو آنسو ؤں کو روک نہ سکتے تھے ۔ اس صورت حال سے مشرکین قریش کے سردار گھبراگئے اور انہوں نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا ، جب ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اس سے کہا کہ ہم نے ابوبکر کے لئے تمہاری پناہ اس شرط کے ساتھ تسلیم کی تھی کہ اپنے رب کی عبادت وہ اپنے گھر کے اندر کیا کریں لیکن انہوں نے شرط کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنے گھر کے سامنے نماز پڑھنے کے لئے ایک جگہ بنا کر برسر عام نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن کرنے لگے ہیں ۔ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہماری عورتیں اور بچے اس فتنے میں نہ مبتلا ہو جائیں اس لئے تم انہیں روک دو ، اگر انہیں یہ شرط منظور ہو کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کیا کریں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ اظہار ہی کریں تو ان سے کہو کہ تمہاری پناہ واپس دے دیں ، کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری دی ہوئی پناہ میں ہم دخل اندازی کریں لیکن ابوبکر کے اس اظہار کو بھی ہم برداشت نہیں کر سکتے ۔ حضرت عائشہ رضیاللہعنہا نے بیان کیا کہ پھر ابن الدغنہ ابوبکر رضیاللہعنہ کے یہاں آیا اور اس نے کہا کہ جس شرط کے ساتھ میں نے آپ کے ساتھ عہد کیا تھا وہ آپ کو معلوم ہے ، اب یا آپ اس شرط پر قائم رہیے یا پھر میرے عہد کو واپس کیجئے کیونکہ یہ مجھے گوار ا نہیں کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو پناہ دی تھی ۔ لیکن اس میں ( قریش کی طرف سے ) دخل اندازی کی گئی ۔ اس پر حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ نے کہا میں تمہاری پناہ واپس کرتا ہوں اور اپنے رب عزوجل کی پناہ پر راضی اور خوش ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مکہ میں تشریف رکھتے تھے ۔ آپ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تمہاری ہجرت کی جگہ مجھے خواب میں دکھائی گئی ہے وہا ں کھجور کے باغات ہیں اور دو پتھریلے میدانوں کے درمیان واقع ہے ، چنانچہ جنہیں ہجرت کرنی تھی انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور جو لوگ سرزمین حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ چلے آئے ، حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ نے بھی مدینہ ہجرت کی تیار ی شروع کر دی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کچھ دنوں کے لئے توقف کرو ۔ مجھے توقع ہے کہ ہجرت کی اجازت مجھے بھی مل جائے گی ۔ ابوبکر رضیاللہعنہ نے عرض کیا کیا واقعی آپ کو بھی اس کی توقع ہے ، میرے باپ آپ پر فدا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ۔ حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سفر کے خیال سے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور دو اونٹنیوں کو جو ان کے پاس تھیں کیکر کے پتے کھلا کر تیار کرنے لگے چار مہینے تک ۔ ابنشہاب نے بیان کیا ، ان سے عروہ نے کہ حضرت عائشہ رضیاللہعنہا نے کہا ، ایک دن ہم ابوبکر رضیاللہعنہ کے گھر بیٹھے ہوئے تھے بھری دوپہر تھی کہ کسی نے حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر پر رومال ڈالے تشریف لا رہے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول ہمارے یہاں اس وقت آنے کا نہیں تھا ۔ حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ بولے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں ۔ ایسے وقت میں آپ کسی خاص وجہ سے ہی تشریف لا رہے ہوں گے ، انہوں نے بیان کیا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت چاہی ٰ ابوبکر رضیاللہعنہ نے آپ کو اجازت دی تو آپ اندر داخل ہوئے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اس وقت یہاں سے تھوڑی دیر کے لئے سب کو اٹھادو ۔ ابوبکر رضیاللہعنہ نے عرض کیا یہاں اس وقت تو سب گھر کے ہی آدمی ہیں ، میرے باپ آپ پر فدا ہوں ، یا رسول اللہ ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے ۔ ابوبکر رضیاللہعنہ نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ ! کیا مجھے رفاقت سفر کا شرف حاصل ہو سکے گا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ان دونوں میں سے ایک اونٹنی آپ لے لیجئے ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن قیمت سے ، حضرت عائشہ رضیاللہعنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم نے جلدی جلدی ان کے لئے تیاریاں شروع کر دیں اور کچھ توشہ ایک تھیلے میں رکھ دیا ۔ اسماء بنت ابیبکر رضیاللہعنہا نے اپنے پٹکے کے ٹکڑے کر کے تھیلے کا منہ اس سے باندھ دیا اور اسی وجہ سے انکانام ذاتالنطاقین ( دوپٹکے والی ) پڑ گیا عائشہ رضیاللہعنہا نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضیاللہعنہ نے جبل ثور کے غار میں پڑاؤ کیا اور تین راتیں گزاریں عبداللہ بن ابیبکر رضیاللہعنہما رات وہیں جا کر گزارا کرتے تھے ، یہ نو جوان بہت سمجھدار تھے اور ذہین بےحد تھے ۔ سحر کے وقت وہاں سے نکل آتے اور صبح سویرے ہی مکہ پہنچ جاتے جیسے وہیں رات گزری ہو ۔ پھر جو کچھ یہاں سنتے اور جس کے ذریعہ ان حضرات کے خلاف کاروائی کے لیے کوئی تدبیر کی جاتی تو اسے محفوظ رکھتے اور جب اندھیرا چھا جاتا تو تمام اطلاعات یہاں آ کر پہنچاتے ۔ ابوبکر رضیاللہعنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضیاللہعنہ آپ ہر دو کے لئے قریب ہی دودھ دینے والی بکری چرایا کرتے تھے اور جب کچھ رات گزر جاتی تو اسے غار میں لاتے تھے ۔ آپ اسی پر رات گزارتے اس دودھ کو گرم لوہے کے ذریعہ گرم کر لیا جاتا تھا ۔ صبح منہ اندھیرے ہی عامر بن فہیرہ رضیاللہعنہ غار سے نکل آتے تھے ان تین راتوں میں روزانہ کا ان کا یہی دستور تھا ۔ حضرت ابوبکر رضیاللہعنہ نے بنیالدیل جو بنیعبدبنعدی کی شاخ تھی ، کے ایک شخص کو راستہ بتانے کے لئے اجرت پر اپنے ساتھ رکھا تھا ۔ یہ شخص راستوں کا بڑا ماہر تھا ۔ آل عاص بنوائل سہمی کا یہ حلیف بھی تھا اور کفار قریش کے دین پر قائم تھا ۔ ان بزرگوں نے اس پر اعتماد کیا اور اپنے دونوں اونٹ اس کے حوالے کر دیئے ۔ قرار یہ پایا تھا کہ تین راتیں گزار کر یہ شخص غار ثور میں ان سے ملاقات کرے ۔ چنانچہ تیسری رات کی صبح کو وہ دونوں اونٹ لے کر ( آ گیا ) اب عامر بن فہیرہ رضیاللہعنہ اور یہ راستہ بتانے والا ان حضرات کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے ساحل کے راستے سے ہوتے ہوئے ۔
No comments:
Post a Comment